Sunday, March 15, 2009

علی محمد فرشی


علی محمد فرشی
حمید شاہد ” مرگ زار“ میں

میں نے محمد حمید شاہد کو نہایت قریب سے اور اس کے فن کو قدرے فاصلے سے دیکھنے کی روش اپنائی ہوئی ہے۔ بالعموم شخصیت کے بہت قریب جانے پر وہی ہولناک منظر درپیش ہوتا ہے جس کا تجربہ چاند پر اترنے والے پہلے آدمی کو ہوا تھا۔ حمید شاہد کا معاملہ قدرے مختلف ہے ۔ میں جوں جوں اس کے قریب ہوتا گیا اس کی شخصیت کا جمال بڑھتا ہی گیا۔ اور جب بھی اس کے افسانے کو فاصلہ بڑھا کر پڑھا اس کے وقار اور اسرار میں اضافہ ہی دیکھا۔
میں نہیںجانتا کہ موت سے اس کا پہلامکالمہ کب ہوا تھا تاہم میں اس سے خوب آگاہ ہوں کہ ”مرگ زار“ تک آتے آتے وہ موت کے اسرار سے بہت سے پردے اٹھا چکاہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس کے افسانوں کی پہلی کتاب ”بند آنکھوں سے پرے“ کے پہلے ہی افسانے ”برف کا گھونسلا“ میں موت در آئی تھی ۔ اس کتاب کا آخری افسانہ ”کفن کہانی “ تھا جب کہ درمیان میں شائع ہونے والی کتاب ”جنم جہنم“ کے بیچ زندگی اور موت کی تجرید کا ہلکورے لیتا سمندر....
ابھی ہم ”جنم جہنم“ کے حوالے سے ذات اور شناخت کے حیرت کدے سے نکل نہ پائے تھے کہ گیارہ ستمبر کی تباہی کا سارا ملبہ اس کے آنگن میں آگرا اور اس کے تہذیبی وجود کو” لوتھ“ جیسی اہم کہانی کے مقابل کر گیا ۔
” زخم تھے تو بہت پرانے مگر بیٹے پر ان کے کھلنے اور حواس پر شب خون مارنے کا واقعہ ایک ساتھ ہوا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ اس کا بیٹا ٹی وی کے سامنے بیٹھا بار بار دکھائے جانے والے وقت کے عجوبہ سانحے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ پہلے ایک طیارہ آیا ¾ قوس بناتا ہوا ...... اور ...... ایک فلک بوس عمارت سے ٹکرا گیا¾ شعلے بھڑک اُٹھے ...... اور ابھی آنکھیں پوری طرح چوپٹ ہو کر حیرت کی وسعت کو سمیٹ ہی رہی تھیں کہ منظر میں ایک اور طیارہ نمودار ہوا۔ پہلے طیارے کی طرح ...... اور پہلی عمارت کے پہلو میں اسی کی سی شان سے کھڑی دوسری عمارت کے بیچ گھس کر شعلے اچھال گیا۔ “
اس منظر میں دوکردار ہیں جو اپنی اصل میں ایک ہی تہذیبی تسلسل کے دو زمانی وقفوں کی علامت بن جاتے ہیں ۔ اس زمانی وقفے کا تعین افسانہ نگار نے کہانی کے عقبی حصے میں فلیش بیک تیکنیک سے کیا ہے جبکہ اس حصے میں خوب مہارت سے ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے بیٹے کی عقبی نشست پر باپ کی موجودگی کو ماضی کی اسی جہت سے جوڑ دیا ہے یوںیہ کہانی ایک سلسلہ¿ واقعات میں جڑتی ہے جس کے تسلسل کا رخ اندوہناک سانحے میں مڑ گیا ہے ۔
یہ کہانی ہماری نصف صدی کی تاریخ میں دو نسلوں کے درمیان پھیلی ہوئی خلیج کا تنقیدی بصیرت کے ساتھ جائزہ لیتی ہے جس میں ہمارے خواب ڈوب گئے ہیں۔ باپ ‘ پاکستان بنانے والی نسل کی نمائندگی کرتا ہے ‘ اور اس کردار کی نفسیات کو بننے کے لیے افسانہ نگار نے ماضی کو حال کا حصہ بناکے زمین کو ایمان اور وجود کا حصہ بنا دیا ہے۔ اس ماضی میں بھی ایک ریل اپنی ساری دہشت بسین نالے میں انڈیل دیتی ہے ۔قدموں تلے کی زمین چھینی جا رہی تھی یا پھر نئی زمینوں کی پکار پرانے رشتوں کی ساری طنابیں توڑ رہی تھی ۔
”ریل کے رکتے ہی دہشت کا منھ زور ریلا اُمنڈ پڑا جو بسین کے کنارے کنارے دورتک پھیل گیا تھا۔ اوپر کہیں شدید بارشیں ہوئی تھیں ¾ یہاں بھی مینہ کم نہ برسا تھا اور ابھی تک پھوار سی پڑ رہی تھی مگر اوپر کی بارشوںنے نالے کو دریا بنا دیا تھا۔ حوصلے تو پہلے کے ٹوٹے ہوئے تھے‘ آگے پُل ٹوٹ گیا تھا اوربلوائی کسی بھی وقت ان تک پہنچ سکتے تھے۔ بسین کا بپھرا ہوا پانی سامنے تھا ¾ بلوائی نہیں پہنچے تھے مگر ان کی دہشت پہنچ گئی تھی۔شوکتی ہوئی اور خوخیاتی ہوئی دہشت.... خوف سینوں سے سسکاریاں کشید کرتا تھا....اتنی زیادہ اور اس تسلسل سے کہ یہ سسکاریاں بسین کے پانیوں کے شور شرابے پر حاوی ہو رہی تھیں.... اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ تھاما ¾ ننھی بیٹی کو کندھے سے لگایا .... بیوی کو نگاہ سامنے کنارے پر جمائے رکھنے کی تلقین کی اور خود بھی پار دیکھ کر آگے بڑھنے لگا....اس کی بیوی کو آٹھوں آدھے میں تھا۔ پانی دیکھ کر اُسے چکر آنے لگتے تھے ¾ ایک قدم آگے بڑھاتی تھی تودو پیچھے کو پڑتے تھے۔ وہ سامنے کنارہ دیکھتی تھی مگر اُچھلتا چھل اُچھالتا منھ زور پانی اس کا دھیان جکڑ لیتا تھا.... حتی کہ وہ چکرا گئی ¾ پاﺅں اُچٹ گئے اور وہ پانیوں پر ڈولنے لگی۔اس نے بیوی کو چکرا کر پانی پر گرتے ہوئے دیکھا تو اُسے سنبھالنے کو لپکا۔ ننھی بیٹی جو کندھے سے لگی تھی اس پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ بیوی کو سنبھالتے سنبھالتے بیٹی پانیوں نے نگل لی ۔ اس نے بہت ہاتھ پاﺅں مارے مگر وہ چند ہی لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہو گئی۔“
وہ جو اُس تجربے کوپوری شدت سے محسوس ہی نہیں کر سکتا تھا جو بسین میں بہت کچھ بہا دینے کے بعد پہلی والی نسل کے شعور کا حصہ بنا تھا اور اس کا سبب یہ ہے کہ بیٹے پر نئی زمین پر اترنے کی لذت کا ذائقہ اترا ہی نہ تھا۔ وہ مہاجر تو تھا مگر ہجرت کے تجربے سے آگاہ نہ تھا ۔ اس بات کی وضاحت کہانی کے اس اقتباس سے ہو جاتی ہے :
”وہ عین بسین کے وسط سے دُکھ سمیٹ کر واپس پہلے کنارے پر پلٹ گئے۔ وہیں انہیں رات پڑ گئی اسی کنارے پر قافلے کی عورتوں نے رات کے کسی سمے اپنی اپنی اوڑھنیوں سے اوٹ بنائی اورسسکیوں کے بیچ ایک معصوم کی ننھی چیخوں کا استقبال کیا۔“
اب اس تناظرمیں کہانی کے پہلے جملے کو پڑھیے۔
”اس کی ٹانگیں کولہوں سے بالشت بھر نیچے سے کاٹ دی گئی تھیں۔“
یاد رہے‘ اس کی ٹانگیں کٹوانے کا فیصلہ اس کے بیٹے کا تھا جس نے غیر ملکی ڈاکٹروں کی تجویز بند آنکھوں سے قبول کر لی تھی ۔ یہاں استعاراتی پیرایہ¿ اظہارمیں باپ‘ بیٹا‘ بسین نالہ ‘ ملکی اور غیر ملکی ڈاکٹر ز‘ زخم ‘ کٹی ہوئی ٹانگیںاور کہانی کا عنوان لوتھ جیسے الفاظ حمید شاہد نے اس فنی ہنر مندی کے ساتھ استعمال کیے ہیں کہ کہانی الجھاو¿ اور ابہام سے دامن کشاں ہو کر جمالیاتی لپک کے ساتھ ترسیل کی بلند سطح کو چھو لیتی ہے۔
ایسی کہانیاں بالعموم لکھنے والے کو مشکل میں ڈال دیتی ہیں ‘کیوں کہ قاری بہر طور اس کا نقطہ ¿ نظر معلوم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ایک قسم کے لکھاری تو ایسی ذمہ داری قبول ہی نہیں کرتے اور قاری کو گو مگو کی دلدل میں اتار کر چین کی نیند سوتے ہیں جبکہ کچھ ذمہ داری کے احساس سے مجبور ہوکر واقعات کے درمیان سے غیر ضروری طور پر سر باہر نکال کر خطاب شروع کر دیتے ہیںاور کہانی کی سطح پر خراشیں ڈال دیتے ہیں۔ حمید شاہد کا کمال یہ ہے کہ اس نے نقطہ ¿ نظر کو ملفوف بھی رکھا ہے اور بیٹے کی سوچ کو ایک سنجیدہ سوال کا جال بنا کر سطح پر پھیلا بھی دیا ہے جس میں قاری کا ذہن ایک بار ضرور الجھتا ہے ۔
”پہلے پہل یوں ہوا تھا کہ ٹی وی پر دونوں عمارتوں سے جہاز ٹکراتے دیکھ کر وہ بھی قہقہہ بار ہوا ¾ ہوتا چلا گیا.... حتی کہ آنکھیں کڑوے پانیوں سے بھر گئیں ۔ جب بار بار نشر کیا جانے والا منظراس کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوگئیں تووہ عجیب طرح سے سوچنے لگا تھا۔ منظر میںتوجہاز جڑواں فلک بوس ٹاورز کے بیچ گھستے تھے مگر اُسے یوں لگتا جیسے وہ دونوں ٹاورز لوہے اور سیمنٹ کے نہ تھے اس کی اپنی ہڈیوں اور ماس کے بنے ہوئے تھے۔“
کہانی ختم ہوتی ہے تو کئی سوالات قاری کے سامنے آکھڑے ہوتے ہےں۔ یہ سوالات بسین نالے سے اٹھتے ہیں اوراس منظر سے جس میں شعلے بھڑک اٹھے تھے ۔ اس حیرت سے جو بیٹے کے چہرے پر کھنڈ گئی تھی اور اس ردعمل سے بھی جو باپ کوبالآخر دہشت زدہ کر گیا تھا ۔ آنکھوں میں کڑوے پانی تھے۔ بہت کچھ بسین کے پانیوں میں بہہ گیا تھا۔ جو باقی بچا تھاا سے ان کڑوے پانیوں نے بہا دیا تھا کیا اب بھی کچھ باقی بچ گیا تھا ؟....ایک لوتھ یا .... اس” یا “کا جواب اس سلسلے کی دوسری کہانی”گانٹھ“ کی صورت سامنے آتاہے۔
افسانہ ”گانٹھ“ کا مرکزی کردار ڈاکٹر توصیف ہے ۔ اس کی آنکھیں امریکی معاشرے کی ظاہری چکا چوند سے چندھا گئی تھیں ۔ انسان دوستی اور روشن خیالی کے رنگین اشتہار ات نے اسے اپنی ’فرسودہ‘ شناخت سے بر گشتہ کر دیا تھا اور اس نے اپنے نام کوتوصیف سے بدل کر طاو¿ژ کر لیا تھا ۔یوںخود ساختہ عالمی شہریت اختیار کر لی تھی۔ اسی دوران اس کی شادی کتھرائن سے ہوئی اور اس سے اُس کے دو بیٹے راجر اور ڈیوڈ.... اس کی پر امن روشن خیال اور انسان دوست شخصیت کے خواب شاید یو نہی پھولتے پھلتے رہتے ‘ لیکن گیارہ ستمبر کے دھماکوں میں جہاں ایک اندھی طاقت کو انگیخت لگی وہیں اس کے موہوم تصورات بھی بھک سے اڑ گئے.... وہ پاکستانی یا مسلمان ہونے کے سبب مشتبہ ٹھہرا تھا اور یوں اپنے خوابوں کی جنت سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ اس موقع پر جب اس کی روشن خیال بیوی کا اصلی چہرہ اس کے سامنے آیا تو وہ اسے جارح قوم کی ذلیل کتیا نظر آئی اور اپنے لخت جگر راجر اور ڈیوڈ اپنے بدلے ہوئے طرز عمل کے باعث اُس ذلیل کتیا کے ذلیل پلے۔
زمین اور تہذیب سے اُکھڑی ہوئی نسل کایہ المیہ حمید شاہد نے محض بیانیہ واقعات کے تانے بانے سے نہیں بُنا‘ بلکہ فلیش بیک میں دور طالب علمی میں اس کے بنائے ہوئے ایک ادھورے سیلف پورٹریٹ کو گوگول کی ایک کہانی کی تصویر کے ساتھ اس فنی مہارت کے ساتھ جوڑا ہے کہ یہ کولاژ کاری اس کہانی کو فنی سطح پر کئی بلندیاں عطا کر گئی ہے ۔ پہلے وہ تصویر جسے توصیف نے بنایا اور وہ ادھوری رہ گئی تھی:
”یہ اس کی اپنی تصویر تھی ‘ جو ادھوری رہ گئی تھی۔ کچے پن کی چغلی کھانے والی اس ادھوری تصویر میں کیا کشش ہو سکتی تھی کہ
اسے ابھی تک سنبھال کر رکھا گیا تھا.... اُس نے غور سے دیکھا .... شاید ‘ بلکہ یقیناً کوئی خوبی بھی ایسی نہ تھی کہ اس تصویر کو یوں سنبھال کر رکھا جاتا .... اسے یاد آیا جب وہ یہ تصویر بنا رہا تھا تو اس نے اپنے باپ سے کہا تھا ‘ کاش کبھی وہ دنیا کی حسین ترین تصویر بنا پائے۔ اُس کے باپ نے اس کی سمت محبت سے دیکھ کر کہا تھا ‘ تم بنا رہے ہو نا‘ اس لیے میرے نزدیک تو یہی دنیا کی خوبصورت ترین تصویر ہے ‘ ....وہ ہنس دیا تھا‘ تصویر دیکھ کر ‘اور وہ جملہ سن کر۔
یہ جو اپنے اپنائیت میں فیصلے کرتے ہیں‘ان کی منطق محبت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی....
تصویر نامکمل رہ گئی کہ اس کا دل اوب گیا تھا مگر اس کے باپ کو اپنا کہا یاد رہا‘ لہذا اس نے اس ادھوری تصویر کو اس دیوار پر سجا دیا تھا۔ “
اور اب تصویر کا قصہ جو اس تصویر کا پیوند ہو گئی تھی اور یہ بھی نامکمل رہنے والی تصویر تھی تاہم اس نے ایک مرحلے پر توصیف کو تھام لیا تھا:
” تھامنے والے ہاتھ گوگول کے تھے ....گوگول کے نہیں ‘ اس تصویر کے ‘جو گوگول کے ہاں پہلے مرحلے میں نامکمل رہ گئی تھی.... شیطانی آنکھوں والی ادھوری تصویر۔مگر یہ بھی وہ تصویر نہ تھی جس نے اسے تھاما تھا کہ اُس کا چہرہ تو معصومیت لےے ہوئے تھا .... فرشتوں جیسا ملائم اور اُجلا۔ یہ اسی تصویر کا دوسرا مرحلہ تھا جبکہ وہ مکمل ہو گئی تھی۔ تصور ایک جگہ ٹھہر گیا تو اسے گوگول کے افسانے کا وہ پادری یاد آیا جس نے سب کا دھیان شیطانی تاثرات والی آنکھوں کی جانب موڑدیا تھا۔ اُسے ابکائی آنے لگی“
دونوں تصویریں اپنی اپنی جگہ ایک تکون بناتی ہیں ۔ دونوں تکونوں کے ایک زاویے پر نامکمل تصویر ہے ‘جو دوسرے پر مکمل ہو جاتی ہے جب کہ تیسرا زاویہ ‘معصیت اور شیطنت بدل بدل کر دکھاتا ہے ۔ یہ ایک مشکل تیکنیک ہے لیکن حمید شاہد کے ہاں یہ پسندیدہ تیکنیک ہے کہ اس طرح وہ متن کے اندر معنویت کا نیا جہاں آباد کر دیتا ہے ۔ اس سے پہلے وہ یہی تیکنیک ”نئی الیکٹرا“ میں کامیابی سے نبھا چکا ہے ۔ ”گانٹھ“ میں اس نے گوگول کے افسانے کی تھیم اور چیدہ چیدہ مناظرکو کہانی کے موضوعاتی فریم میںاس فنی سلیقے کے ساتھ پینٹ کیا ہے کہ یہ واقعہ اپنی تمام تر عصری صداقتوں پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہوا خیرو شر کے دائمی دیارتک جا پہنچتا ہے۔ وہ ادبیات عالیہ سے کوئی شہکار منتخب کرتا ہے اور اسے اپنے فن پارے میں یوںجڑدیتا ہے کہ اس کی روشنی سے معانی کا تناظر ابدیت کے کناروں تک پھیل جاتا ہے۔ یہ اس کے وسیع مطالعے کی دلیل اور اس مطالعے کا اس کے تخلیقی وجود میں حلول کر جانے کا مظہر بھی ہے۔ علاوہ ازیں یہ اس بات کی تصدیق بھی ہے کہ ہر بڑی تخلیق کا ماقبل کی بڑی تخلیقات کے ساتھ کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہوتا ہے۔
پاﺅں کے نیچے زمین نہ ہو تو ساری آفاقی گرہیں تارِ عنکبوت سے بھی کمزور ثابت ہوتی ہیں ۔ ایسے میں فن پارہ خلا ہی میں معلق رہ جاتا ہے اور چپکے سے وقت بھی فنکار کے پاﺅں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیتا ہے۔ اور قاری بے چارہ لاشےں ڈھوتے ڈھوتے اتنا تھک جاتا ہے کہ زندہ لفظوں سے بھی ڈر لگنے لگتا ہے۔
رسول حمزہ توف نے ”میرا داغستان“ میں ایک اپاہج شہزادے کی کہانی بیان کی ہے ۔ وہ پیدائشی معذور تو نہیں تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کے اعضا ڈھیلے پڑنا شروع ہو گئے اور آخر آخر وہ ایک لوتھ کی طرح بستر پر پڑا رہ گیا۔ شاہی اطبا ءعلاج کیا کرتے....؟ مرض کی تشخیص ہی نہ ہو پائی ۔ کئی شادیوں کے بعد جس ملکہ نے تخت کا وارث پیدا کیا تھا وہ تو بستر سے لگ ہی گئی ۔ بادشاہ بھی تاج وتخت سے بے نیاز ہوا چاہتا تھا کہ ایک سیلانی حکیم وارد ہوا۔ اس نے ملکہ سے تخلیہ میں شہزادے کی اصلیت کا راز معلوم کر لیا۔ یہ اس کے علاج میں معاون ہو سکتا تھا۔ حکیم نے محل کے ایک گوشے میں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور گلہ بانوں کی چھولداریاں لگوادیں۔ جب وہ گلہ بانوں کی بودوباش اور بھیڑ بکریوں کی بوباس سے مطمئن ہو گیا تو اس نے شہزادے کا بستر وہاں لگوا دیا ۔ اس ماحول میں آتے ہی لوتھ میں زندگی کی لہر نے پلٹا کھایا اور وہ رفتہ رفتہ صحت یاب ہو گیا ۔ رسول حمزہ توف نے اس تمثیل سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو ادیب اپنی زمین کے ساتھ رشتہ استوار رکھتا ہے اس کا لفظ کبھی اپاہج نہیں ہوتا۔
حمید شاہد اس اعتبار سے خوش بخت ادیب ہے کہ اس کی تحریروں کے نیچے بچھی ہوئی مٹی میں اس کے پُرکھوں کے پسینے کا وتر موجودہے ۔ اس کا تعلق ادیبوں کی اس نسل سے ہے جو پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئی اور پاکستان ٹوٹنے کا المیہ کھلی آنکھوں سے دیکھتی رہ گئی۔ حمید شاہد نے ایک بار ذکر کیا تھا کہ اس کے تخلیقی وجود کی بیداری میں سقوط ڈھاکہ کا گہرا عمل دخل ہے۔ اگرچہ اس کا راست اظہار تو اس کے ہاں نہیں ہے تاہم اپنی مٹی سے لگاﺅ اور وطن ٹوٹنے کا گھاﺅ اس کی بہت سی کہانیوں میں نئی معنویت پیدا کر گیا ہے ۔
ادیب تاریخ کا پہیہ روک تو نہیں سکتا لیکن اس کے نیچے کچلی جانے والی اقدار اور انسانی شناختوں کے ٹکڑے اپنے میوزم میں سجا کر محفوظ تو کر سکتا ہے ۔ ”معزول نسل “ میں بدلتی ہوئی معاشرت کے ارتقا ءکے آخری سرے پر سوائے ذات کی تنہائی کے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔” رکی ہوئی زندگی“ میں ظاہری چمک دمک کے پیچھے ازدواجی زندگی کے حقیقی رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور مرد باسی روٹی کی طرح بے ذائقہ ہو جاتا ہے ۔ اور یہ بھی ایک طرح کی موت ہی ہے ۔ ”دُکھ کیسے مرتا ہے“ اور ”مرگ زار “ بھی اس مجموعہ کی اہم کہانیاں ہیں ‘ بلکہ زندگی اور موت کی انتہاﺅں پر پھیلی ہوئی ایک ہی کہانی کی دوقوسیں ہیں۔ اوّل الذکر میں کہانی کار نے زندگی کے عظیم ترین جذبے ’محبت‘ کو نہایت معمولی سطح پر مرتے ہوئے دیکھا تو آخر الذکر میں شہادت کی ابدی زندگی کے عظیم تصور کو دھوکے کی خوفناک موت مرتے دیکھ لیا ہے ۔ ”موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ ” ادارہ اور آدمی “ اور ”موت کا بوسہ“ جیسی کہانیوں میں موت مختلف عصری‘ سماجی‘ سیاسی اور معاشی سطحوں پر روپ بدل بدل کر وار کرتی ہے اور آدمی اس کے مقابل بے بسی اوڑھ کر بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔
ہماری اجتماعی نفسیاتی حالت منشایاد کی معروف کہانی ”راتب“ کے مرکزی کردار جیسی ہو چکی ہے ۔ ہم عالمی چوہدری کے ”راتب“ کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنے تہذیبی شجرے سے شک کی بو آنے لگی ہے ۔ ایسے میں حمید شاہد نہ تو مایوسی کی فصل کا ٹتا ہے اور نہ امیدکی نرسری اگاتا ہے ۔ بعض لوگ حقیقت کو ننگا دیکھ کر شرما جاتے ہیں یا گھبرا جاتے ہیں ۔ اس کتاب میں یہ دونوں رویے نظر نہیں آتے ۔ البتہ ایک گاڑھی اور پگھلی ہوئی اذیت ہے جو ان کہانیوں میں بہہ رہی ہے ۔ یہ اذیت پڑھنے والوں کو اندر سے بدل کر رکھ دیتی ہے ۔
اندر ہی اندربہتی ہوئی گہری اذیت سے ہم اس وقت تو بہت شدت سے دوچار ہوتے ہیں جب حمید شاہد کی کہانی ” سورگ میں
سو¿ر“ کو پڑھتے ہیں۔ ”سورگ میں سو¿ر“ اپنے ہی وطن میں زمینی وسائل اور تہذیبی اقدار سے اجتماعی بے دخلی کی کہانی ہے ۔ گیارہ ستمبر کے پس منظر میں سو¿روں کی آمد ‘ کتوں کی بہتات ‘ بکریوں کی اموات اور مونگ پھلی کی کا شت جیسی علامتوں سے حمید شاہد نے عالمی بساط پر کھیلے جانے والے اس مکروہ کھیل سے پردہ اٹھایا ہے جس میں موت اور مات ہمارے تہذیبی تشخص کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اس افسانے نے اپنی اشاعت سے قبل ہی ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی اور اسلام آباد کے الگ الگ تنقیدی جلسوں میں اس افسانے کے مختلف پہلوو¿ں پر گھنٹوں بحث چلی ‘ اور حمید شاہد نے ڈھیروں داد سمیٹی ۔ میں بھی ان بحثوں میں پیش پیش رہا لیکن اب اس کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں تو اس کے الگ مطالعہ کا قرض باقی رکھتے ہوئے قلم رکھ رہا ہوں ‘ کیوں ؟ شاید اس لیے کہ جہاں کہانی ختم ہوتی ہے وہاں سے اذیت کی دلدل شروع ہو گئی ہے ۔بلاشبہ اس کہانی کو اردو ادب کی بڑی کہانیوں میں اعتماد کی ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔
سقراط نے عدالت میں کہا تھا ‘میری فکر کی مثال کتا مکھی جیسی ہے جو ایتھنز (Athens)کو چین نہیں لینے دیتی۔ خیال رہے کہ کتا مکھی زندہ کتے پر بیٹھتی ہے اور اسے زندگی پر اکساتی اور بے چین رکھتی ہے ۔ مرے ہوئے کتے پر صرف گندگی کی مکھیاں ہی ہجوم کرتی ہیں ۔ شاید ابھی ہم تک پوری طرح نہیں مرے اور ممکن ہے کہ یہ کتاب ہمیںبے چین کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Followers