Sunday, March 15, 2009

ناصر عباس نیّر


ناصر عباس نیّر
”مرگ زار “پر چند باتیں

ہر ادبی تحریر کے دو مصنّف ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کا نام تحریر کے ساتھ کندہ ہوتا ہے۔ وہ دراصل تحریر سے پہلے اور باہر ‘ طبعی وجود رکھتا ہے جب کہ دوسرا تحریر کے اندر سرایت کئے ہوتا ہے اورvirtually وجود رکھتا ہے ۔ پہلا اپنے ہونے کا اعلان خود کرتا ہے ‘ مگر دوسرے کو قاری ‘تحریر کے دوران میں conceiveکرتا ہے ۔ ایک کو ہم اصل مصنّف(Actual Author) اور دوسرے کو مرادی مصنّف (Implied Author) کہہ سکتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دوسرا پہلے کا ہو بہو عکس ہو ۔ وگرنہ بالعموم تحریر سے باہر اور تحریر کے اندر موجود ومضمر مصنّف میں فرق ہوتا ہے ۔ یہ فرق نقطہ ءنظر کا بھی ہوتا ہے اور شخصیت کا بھی ! اکثر اصل مصنّف کے سیاسی‘مذہبی اور اخلاقی تصورات اس کی تحریروں میں تحلیل ہو جاتے ہیں ۔ مرادی مصنّف اصل مصنّف کی سماجی شخصیت سے بغاوت کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ایک کا آدرش دوسرے کی کمزوری بن جاتا ہے ۔ اس کا ایک سبب تو سماج ‘ ریاست یا پارٹی کا نظریاتی دباﺅ ہوتا ہے اور دوسرا سبب زبان اور ادب کا مخصوص تفاعل ہے ۔ ساختیات اور نشانیات میں جس مصنّف کی نفی کا اعلان کیا گیا ہے وہ درحقیقت” اصل مصنّف“ ہی ہے۔ ساختیات نے چوں کہ اصل مصنّف کی نشست خالی کرکے وہاں قاری کو بیٹھا دیا ہے ‘ اس لیے وہ ”مرادی مصنّف“ کا ادراک کرنے سے قاصر رہی ہے ۔ یہ درست ہے کہ متن فہمی میں قاری فعال کردار ادا کرتا ہے اور قاری کے عمل قرا¿ت سے ہی متن عملاًوجود رکھتا ہے مگر ہر ادب کی معنیاتی حدود ہوتی ہیں ‘ جنہیں قاری گرفت میں لیتا ہے ۔ ان کی تعبیر بھی کر سکتا ہے مگر ان کی تخلیق نہیں کرتا ۔ ان حدود کو صنف‘ زبان ‘شعریات اور مرادی مصنّف مل کر تخلیق کرتے ہیں۔ بہر کیف ادبی مطالعات میں مصنّف کی اگر کوئی اہمیت ہے اور تجزیہ و تعبیر میں اس کا حوالہ اگر مفید ثابت ہو سکتا ہے تو وہ مرادی مصنّف ہی ہے۔ میں نے ”مرگ زار“ کے مطالعے میں اصل مصنّف سے زیادہ اس کتاب کے افسانوں میں مضمر اور رواں دواں محمد حمید شاہد سے سروکار رکھا ہے ۔
مصنّف کو اہمیت دینے کا مطلب دراصل مصنّف کے زاویہ ءنظر یا اس کی آئیڈیالوجی کو اہمیت دینا ہے اور مرادی مصنّف تو نام ہی ہے ایک مخصوص زاویہ¿ نظر یا آئیڈیالوجی کا! ۔ آئیڈیالوجی کا کلاسیکی (مارکسی)تصور تو سماج کے کسی طبقے کا وہ نظام فکر ہے ‘جسے وہ اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ اور حصول کے لیے وضع کرتا ہے ۔ مگر اب یہ اصطلاح وسیع معنوں میں برتی جانے لگی ہے اوراس سے مراد وہ مخصوص طریق فکر لیا جانے لگا ہے ‘جس کی مدد سے دنیا کو دنیا کو سمجھا جاتا ہے ۔ اور دنیا کو سمجھنے کے لیے جب آپ کوئی مخصوص زاویہ¿ فکروضع یا اختیار کرتے ہیں تو گویا اس زاویے کی موزونیت (validity) اور دیگر زاویہ ہائے فکر کی عدم موزونیت کا اعلان کرتے ہیں ‘ یعنی ایک کا اثبات کرکے دیگر کو بے دخل اور غیر موثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
”مرگ زار“ کے مرادی مصنّف کی بھی ایک آئیڈیالوجی ہے ‘ جس کی مدد سے اس نے دنیا کو سمجھا اور سمجھایا ہے ۔ اسے ”خود شعوریت“ (Self-reflexivity)کا نام دے سکتے ہیں۔ خود شعوریت”مرگ زار“ میں کئی صورتوں میں اور کئی سطحوں پر کار فرما ہے ۔ پہلی صورت میں یہ مصنف کو اپنے تخلیق کار ہونے کا احساس پیہم دیتی ہے ۔ اپنے تخلیق کار ہونے کا احساس سادہ اور عام سی بات نہیں ہے ۔ یہ احساس نوعیت کے اعتبار سے ”آئیڈیالوجیکل “ ہے ۔ یعنی اس احساس کو حاوی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مصنف کا دنیا کے ساتھ رشتہ تخلیقی ہے ۔ وہ دنیا کی تفہیم اور آگے اس کی ترسیل تخلیقی پیرائے میں کرتا اور دیگر پیرایوں کو بے دخل اور غیر مو¿ثر کرتا ہے ۔ دیگر پیرایوں میں سا ئنس‘ صحافت‘ فلسفہ‘ تاریخ وغیرہ بھی شامل ہیں اور وہ نظریے بھی جو اپنی اصل میں سیاسی یا اخلاقی ہیں‘ مگر جنہوں نے چولا جمالیات کا پہنا ہوا ہے ۔ تخلیقی پیرایہ اپنی اصل میںDisinterestedہوتاہے۔ یہ دنیا اور زندگی پر آزادانہ ‘ غیر جانبدارانہ اور غیر مشروط نظر ڈالتا ہے۔ واضح رہے کہ آزادانہ نظر کا مطلب کلی آزادی یا Chaos نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا مو¿قف ہے جو پہلے سے طے شدہ حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ مخصوص اور واحد نظریے کے اجارے کو مانتا ہے ۔ یہ زندگی سے غیر متعصبانہ اور کھلا ڈلا معاملہ کرتا ہے۔ ”مرگ زار“ کے محمد حمید شاہد نے بھی معاصر دنیا اور زندگی پر غیر مشروط اور غیر جانبدارانہ نظر ڈالی ہے ۔
تخلیق ادراک سے اظہار تک جو سفر طے کرتی ہے ‘ اسے سمجھنا آسان نہیں۔ مگر ”مرگ زار“ کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے مصنف کواس سفر میں برابر اپنے تخلیقی منصب کا شعور رہتا ہے اور وہ اظہار کے منفرد تخلیقی قرینے وضع کرتا چلا جاتاہے۔ محمد حمید شاہد کے افسانے کی ہر سطر سے تخلیقی شان اور تخلیقی خود شعوریت کا اظہار ہوتا ہے ۔ وہ ماجرا کہیں یا کسی کردار کے اوضاع و اطوار کو پیش کریں‘ کسی کیفیت کا بیان ہو یا کوئی نفسیاتی تجزیہ‘ جمالیاتی طور کا بطور خاص اہتمام ہوتا ہے ۔ بعض اوقات کسی سادہ قصے کے بیان میں سجی سنوری عبارت کی گنجائش نہ بھی ہو تو وہ گنجائش نکال لیتے ہیں ۔ افسانے کا اسلوب ‘ بیان کنندہ(narrator) کی شخصیت ‘ ذہنی سطح اور کہانی میں اس کے کردار کے تابع نکال لیتے ہیں۔ محمد حمید شاہد اس بات کا ادراک رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ افسانہ ایسے بیان کنندہ کی زبانی کہلواتے ہیں جو قصے کی جزیات کو نفسیاتی بصیرت کے ساتھ پیش کرنے کی ذہنی اہلیت رکھتا ہے ۔
”مرگ زار“ میں خود شعوریت کی کار فرمائی کی دوسری صورت یہ ہے کہ اس میں شامل بعض افسانوں میں‘ افسانویت اور افسانہ سازی کے عمل کا شعور موجود ہے ۔ ان افسانوں کے راویوں کو پیہم یہ احساس اور دھیان رہتا ہے کہ وہ کہانی کہہ رہے ہیں‘ جیسے ”تکلے کا گھاﺅ“ اور ”مرگ زار“ میں راوی‘قاری کو یہ تاثر دینے کی مسلسل سعی کرتا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کی کہانی کہہ رہا ہے ۔ ان افسانوں میں راوی نے ایک مصنف کا بہروپ بھرا ہوا ہے۔ اس طرز کی کہانیاں ہمیں بعض سوالات قائم کرنے اور دنیا اور ادب کے رشتے کو سمجھنے کی کچھ نئی راہیں سجھاتی ہیں (اور یہ معمولی بات نہیں۔)
ایک سوال یہ کہ جس دنیا کو کہانی میں لکھا جا رہا ہے ‘ کیا وہ دنیا خود بھی ایک کہانی ہے ؟ یہ سوال اُٹھانا اس لیے روا ہے کہ مذکورہ افسانوں میں دو کہانیاں ایک ساتھ چلتی ہیں ۔ ایک کہانی راوی کی ہے اور دوسری ‘جو وہ کہہ رہا ہے ۔ ہر چند راوی یہ تاثر دینے کی سعی پیہم کرتا ہے کہ وہ کہانی سے الگ ہے ‘ مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتا ۔ اور اس کی یہ کو شش کہانی کے عمل کا حصہ بن جاتی ہے ۔ چناں چہ یہ پو چھا جا سکتا ہے کہ اگر راوی (جو دنیا کا نمائندہ ہے) کی کہانی اس کی کہی جانے والی کہانی سے الگ نہیں ہے تو پھر ان دونوں میں رشتہ کیا ہے ؟ کیا کہی جانے والی کہانی‘ کہنے والے کی کہانی کا عکس محض ہے؟ یہ بات ترقی پسندوں اور نفسیاتی نقادوں کے مفروضات پر یقین رکھنے والوں کو تو قابل قبول ہوئی‘ مگر ”مرگ زار“ کے مصنف کو نہیں ۔ اس بات کی صداقت تسلیم کر لینے کا مطلب افسانے کے تخلیقی امکانات کو محدود کرنا ہے اور افسانے کو خارجی اور معلوم دنیا کا سیدھا سادا اور” سچا“ بیانیہ بنا ڈالنا ہے ۔”مرگ زار“ کا مصنف اپنی افسانوں میں دنیا کو لکھتا ہے ‘مگر جب یہ دنیا لکھی جاتی ہے تو کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے ۔ افسانوی تخلیقی عمل دنیا کو بدل دیتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں” مرگ زار“ کا افسانہ ہمیں جس دنیا سے آشنا کرتا ہے ‘ وہ اس کی اپنی ڈھالی ہوئی اور تشکیل دی گئی دنیا ہے ۔ اس کتاب کے افسانوں کو پڑھنے سے دنیا سے متعلق فقط ہمارے سابق یا بھولے بسرے علم کا احیا نہیں ہوتا‘ بلکہ ہمیں باہر کی دنیا کا نیا ادراک حاصل ہوتا ہے ۔ یعنی ہم محض بازیافت نہیں کرتے ‘نئی یافت سے سرفراز ہوتے ہیں ۔ ہم معاصر دنیا کے اطراف کی آگہی پاتے ہیں جن سے پہلے بے خبر تھے یا جنہیں مسخ کر دیا گیا تھا۔ مثلاً ” دُکھ کیسے مرتا ہے“میں ہم گہرے ذاتی دُکھ سے نجات کی ایک نئی نفسیاتی حکمت عملی کی آگہی پاتے ہیں اور افسانہ ” مرگ زار“ میں ایمان اور زمین سے متعلق اس تصور کا سراغ پاتے ہیں جسے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے نام پر جاری مہم نے مسخ کر رکھا ہے۔
ان افسانوں میں راوی پر مصنف کا گمان ہوتا ہے تو ہر چند یہ سوال اٹھتا ہے کہ اصل مصنف کہانی میں کتنا شامل اور کتنا فاصلے پر ہوتا ہے ؟ مگر حقیقتاً یہ افسانوی تیکنیک ہے ‘ جس میں مصنف بہ طور کردار شامل ہے اور اس لیے شامل ہے کہ وہ افسانوی عمل کے امتیاز اور استناد (authenticity) کو باور کراسکے اور اس امر کی ضرورت ایک مخصوص ثقافتی فضا میں درپیش ہوتی ہے اور ہم اسی ثقافتی فضا میں جی رہے ہیں۔
ہمارے زمانے میں بیانیوں اور ڈسکورسوں کی کثرت ہے اور ہر ڈسکورس دنیا کو اپنی جدا گانہ زبان ‘ اپنے الگ اسلوب اور اپنی مخصوص آئیڈیالوجی کی رو سے پیش کرتا ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہر ڈسکورس اپنی آئیڈیالوجی اور اپنی حکمت عملیوں کو چھپانے کی کو شش کرتا ہے ۔ جس طرح صارفیت میں تاجرانہ مقاصد اور مفادات کو مخفی رکھنے کی کو شش ہوتی ہے ۔ مذہبی ‘ سائنسی‘ فلسفیانہ ‘ معاشی‘ سیاسی بیانیوں میں بھی اصل مقاصد اور ان کے حصول کی حکمت عملیوں کو چھپایا جاتا ہے ۔ اور یہ سب اس لیے ہو تا ہے کہ دنیا کے اس تصور کو مسلط کیا جا سکے ‘جسے کسی بیانیے اور ڈسکورس نے تشکیل دے رکھا ہے۔ ہر ڈسکورس دراصل طاقت کے حصول کا خواہاں ہوتا ہے ۔ یہ صورت حال ادب اور آرٹ کے لیے خاصی پریشان کن ہوتی ہے کہ وہ اپنی جمالیاتی ماہیت کی رو سے رمز و علامت سے کام لیتا ہے اور جس میں بہت کچھ چھپایا جاتا ہے اور بہت کچھ ’ان کہا‘ چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ایسے میں ادب کو دوسرے بیانیوں اور ڈسکورسوں سے خلط ملط کیا جا سکتا ہے۔ اس پریشانی کا ایک حل خود شعوریت ہے ‘ یعنی ایسی تیکنیک سے کام لیا جائے ‘ جو قاری کو باور کرائے رکھے کہ وہ کسی اور ڈسکورس سے نہیں ‘ادب سے دو چار ہے ‘ جو قاری پر مخصوص تصور حیات مسلط کرنے کی درپردہ کوئی حکمت عملی نہیں رکھتا ۔ دوسرے ڈسکورس اپنی طاقت پسند حکمت عملیوں سے آدمی کو جکڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو ادب آدمی کو زنجیروں سے آزادی دلاتا ہے ۔ ڈسکورس میں بنیاد پرستانہ مطلقیت پسندی ہوتی ہے تو ادب میں امکانات ہوتے ہیں۔ لہذا خود شعوریت کے ذریعے محمد حمید شاہد نے ادب اور افسانوی عمل کے امتیاز اور استناد کو باور کرانے کی سعی مشکور کی ہے ۔ اور یوں گہرے ثقافتی شعور کا مظاہرہ کیا اور اس کے مقابل مخصوص تخلیقی سٹرٹیجی کو وضع کیا ہے ۔
خود شعوریت سے جہاں محمد حمید شاہد کے افسانوں میں متن در متن یاFrame Narrativeکی صورت پیدا ہوئی ہے ‘ وہاں یہ افسانے نئی قسم کی حقیقت نگاری کے مظہر بھی بن گئے ہیں ۔”برشور“ ”لوتھ“”تکلے کا گھاﺅ“” موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ اور ”مرگ زار“ محمد حمید شاہد کی نو حقیقت پسندی کی عمدہ مثالیں ہیں ۔ واضح رہے کہ ان کی حقیقت نگاری نہ تو سماجی حقیقت نگاری ہے‘ نہ مارکسی حقیقت نگاری اور نہ نفسیاتی یا باطنی حقیقت نگاری۔ ان کی حقیقت نگاری دراصل معاصر زندگی پر غیر مشروط مگر کلی نظر ڈالنے سے عبارت ہے ۔اور یہ اس توازن کو بحال کرتی ہے ‘جسے جدیدیت پسندوںاور ترقی پسندوں کی انتہا پسندانہ روشوں نے پامال کیا تھا۔ جدیدیے داخلی زندگی کو اور ترقی پسند خارجی زندگی کو ہی حقیقت سمجھنے لگے تھے۔ محمد حمید شاہد جس نسل سے تعلق رکھتے ہیں‘ اس نے دونوں کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور زندگی کے دونون رُخوں کو یکساں اہمیت دی ہے۔ اور اہمیت دینے کے ضمن میں ایک طرف دونوں سے استفادہ کیا ہے تو دوسری طرف دونوں تحریکوںسے ہٹ کر موقف بھی اختیار کیا ہے۔ محمد حمید شاہد کے یہاں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں ۔ مثلاً افسانہ” معزول“ کا مرکزی مسئلہ فرد کی شناخت ہے‘ جسے جدیدیت نے اپنا مرکزی سروکار بنایا تھا۔ ”تکلے کا گھاﺅ“ میں بھی داخلیت ‘ تنہائی اور اجنبیت کے اسی گہرے نجی کرب کو موضوع بنایا گیا ہے ‘جسے جدیدیت نے وجودیت سے اخذ کیا تھا۔ محمد حمید شاہد کی افسانوی نثر میں جو شعریت موجود ہے ‘ وہ بھی جدیدیت سے استفادے کی گواہ ہے‘ مگر انہوں نے جدیدیت کے سروکاروں کو پیش کرتے ہوئے کہانی پن کو قائم و بر قرار رکھا ہے اور یہ جدیدیت سے انحراف کی صورت ہے ۔ اسی طرح انہوں نے ترقی پسندوں کے زاویہ¿ نظر کو بھی جزوی طور پر برتا ہے ‘جیسے ”برشور“ میں۔ اس افسانے کا زرگل استحصال پسند طبقے کی علامت ہے‘ جو معاشی ہتھکنڈوں سے تاج محمد ترین کی بیٹی اور جائیداد کو ہتھیا لیتا ہے مگر اسے فارمولا بناکر اپنی کہانیوں میں نہیں برتا۔
محمد حمید شاہد اور اس کے ہم عصرافسانہ نگاروں کو جو بات ان کے پیش رووں سے الگ کرتی ہے وہ دراصل زندگی اور دنیا کو غیر مشروط مگر کلی طور پر افسانے میں برتنے کا رویہ ہے ۔ یہ سوال نما اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ غیر مشروط ہونے کا مطلب کیا کسی نقطہ¿ نظریا مو¿قف سے محروم ہونا نہیں ہے؟ جدیدیے یا ترقی پسند جیسے بھی تھے کوئی نہ کوئی مو¿قف تو رکھتے تھے ‘جس کی مدد سے وہ زندگی کی جیسی بھی سہی‘ تفہیم تو کرتے تھے۔ کیا غیر مشروط زاویہ¿ نظر معاصر زندگی کی تفہیم کر سکتا ہے ؟ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ غیر مشروطیت اپنی جگہ پر خود ایک مو¿قف ہے‘ جو زندگی کی تفہیم کے لیے کسی خاص اور واحد نظریے کے استناد کو قبول نہیں کرتا ۔ اور اولیت ادب کی جمالیاتی اقدار کو دیتا ہے۔ چناں چہ آپ دیکھیں کہ محمد حمید شاہد اور اس کے معاصرین زندگی کو فنی طور پر برتنے کے جس شعور کا مظاہرہ کرتے ہیںوہ ان کے پیش رووں کو کم کم نصیب تھا۔ غیر مشروطیت کے موقف کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہ معاصر زندگی سے حسی نوعیت کا ربط قائم کرتا ہے ۔ واحد نظریے کے علم بردار زندگی سے عینی ربط رکھتے ہیں۔ وہ زندگی کی ایک سطح کی آگہی حاصل کرتے ہیں تو دیگر کئی سطحوں سے بے خبری اور لاتعلقی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر حسّی ربط زندگی کی داخلیت اور خارجیت ‘ زندگی کے سارے حسن اور قبح ‘ حرارت اور نم ناکی‘ فردیت اور اجتماعیت‘ سب کا ادراک کرتا ہے‘ مگر ادراک کو معنیاتی سطح پر لا تعین رکھتا ہے۔ عینی ربط میں معنی کی سطح بھی مقرر اور متعین ہوتی ہے‘ زندگی خارجی اور مادی مسائل سے عبارت ہوتی ہے یا داخلی ‘ نفسیاتی اور باطنی معاملات و کیفیات کا نام ہوتی ہے۔ مگر حسی ربط زندگی کو اس طور ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کرتا ۔ وہ ہر خارجیت کی ایک داخلیت اور ہر داخلیت کی ایک خارجیت کا ادراک کرتا یا تصور باندھتا ہے۔ اس طور معنیاتی امکانات کی راہ کھلی رکھتا ہے۔ اس امر کی سب سی عمدہ مثال محمد حمید شاہد کا افسانہ ”سورگ میں سو¿ر“ ہے ‘ جو اپنی تیکنیک‘ فنی ہنر مندی اور موضوع وتھیم ‘ ہر حوالے سے اس مجموعے کا بہترین اور اُردو ادب کا اہم افسانہ ہے ۔ یہ افسانہ زندگی کا حسی ادراک کرنے اور ادراک کو کسی واحد مفہوم کی قطعیت سے آزاد رکھنے کی قابل رشک مثال ہے۔ اسے تمثیلی پیرائے میں لکھا گیا ہے ۔ اور ہر تمثیل دوہری سطح کی حامل ہوتی ہے۔ پہلی سطح پر یہ ایک حسی اظہار ہوتی ہے مگر دوسری سطح پر اس میں معنیاتی تجرید ہوتی ہے ‘ مگر حسیت اور تجریدیت میں گوشت اور ناخن کا رشتہ ہوتا ہے (یا ہونا چاہیئے ) ۔ ”سورگ میں سو¿ر“ میں بھی یہی صورت ہے۔
بالائی سطح پر یہ بارانی زمین پر آباد سورگ ایسے گاﺅں اور اس کے محنت کش باسیوں کے جہد حیات کی کہانی ہے ‘ مگر زیریں سطحوں میں یہ ایک طرف وطن عزیز کی سیاسی اور پھر ثقافتی تاریخ کا بیانیہ ہے تو دوسری طرف نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورت حال کا قصہ ہے ۔ کہانی میں تھوتھنیوں والے اور کتے جن علامتی کرداروں میں آئے ہیں ‘ اُنہیں معاصر قومی اور عالمی منظرنامے میں پہچاننے میں قاری کو دیر نہیں لگتی۔ مگر واضح رہے کہ یہ افسانہ اپنے اندر محض ہنگامی واقعیت نہیں رکھتا‘ فقط ایک بڑی فوجی طاقت کی بے رحمانہ سرگرمیوں کو تمثیلی انداز میں پیش نہیں کرتا ‘ بلکہ ایک ایسی علامتی جہت بھی رکھتا ہے ‘ جسے مجموعی انسانی تاریخ کے کئی ادوار میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ اگر اس افسانے کو انسانی تاریخ کی نئی اسطورہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اور یہ ”اسطورہ“ اس جدید اساطیری افسانے سے مختلف اور ممتاز ہے کہ اسے محمد حمید شاہد نے تخلیق کیا ہے ۔ جب کہ جدید اساطیری افسانے میں قدیم اساطیر کو برتا گیا تھا۔ اور اسی بنا پر محمد حمید شاہد (اور اس کی نسل) کا افسانہ پیش رو جدید افسانے سے آگے بھی ہے کہ یہ معاصر صورت حال کے غیر مشروط مگر حسی اور کلی ادراک سے اسطورہ سازی کر سکتا ہے ! افسانے کی بنیادی ساخت (کہانی) کو قائم اور جمالیاتی وسائل کا لحاظ رکھتے ہوئے زندگی کے ہنگامی اور تاریخی وجود کا علامتی فہم دیتا ہے !! ۔ علامتی فہم جس میں معنی کی قطعیت نہیں‘ معنی کی امکانیت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے!!! ۔

٭٭٭




No comments:

Post a Comment

Followers