Sunday, March 15, 2009

مبین مرزا







مبین مرزا
مرگ زار: ایک گفتگو
( حلقہ ءارباب ذوق ‘اسلام آباد کی ” مرگ زار“ کے لیے تقریب ‘ منعقدہ اکادمی ادبیات پاکستان‘ اسلام آباد میں کی گئی گفتگو )

معزز خواتین و حضرات!
....محمد حمید شاہد ہم عصر افسانوی ادب کا سنجیدہ حوالہ ہیں ۔ وہ افسانہ نگار بھی ہیں اور نقاد بھی۔ تنقید میں بھی ان کاکام اُن کی شناخت کے نقوش مرتب کرتا ہے اور ہم عصر تنقید کے سرمائے میںایک زیرک‘ سنجیدہ اور بے لاگ اظہار پر یقین رکھنے والے نقاد کے نام کا اضافہ کرتا ہے ۔ تاہم بحیثیت افسانہ نگار آج وہ جس مقام و منزل پر ہیں وہاں تک پہنچتے پہنچتے ایک تخلیق کار پورے قدوقامت کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے آتا اور عصری ادب کے مرکزی دھارے میں اپنی جگہ بنا لیا کرتا ہے۔ چنانچہ محمد حمید شاہد کے افسانوں کی طرف اب نہ تو سر پرستی کے جذبے کے ساتھ نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی دوست داری کو بنیاد بنا کر اُن کے کام کا جائزہ لیا جانا چاہیے بلکہ ہمیں اب اُنہیں پورے معیار کی کسوٹی پر کس کر دیکھنا چاہیے ۔ اس لیے کہ سنجیدگی سے کام کرنے والے تخلیق کار کا مطالعہ سنجیدہ ہو کر ہی کیا جانا چاہیے اور آج کی اس محفل میں حمید شاہد کے کام کے حوالے سے ہونے والی گفتگوئیں سن کر مجھے خوشی ہوئی کہ مقررین نے نہ صرف سنجیدگی سے اُن کا مطالعہ کیا ہے بلکہ مختلف پہلوو¿ں سے ان کے کاکام کا جائزہ بھی لیا ہے ۔ برادرم ناصر عباس نیّر جواں سال نقاد ہیں اور ابھی سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے نئے تنقیدی نظریات اور عصری مباحث کے حوالے سے محمد حمید شاہد کے افسانوں پر یہاں ایک اچھا مضمون پڑھا۔ برادرم علی محمد فرشی کہ اب تک جدید نظم نگار کی حیثیت سے شناخت کئے جاتے تھے ‘انھوں نے حمید شاہد کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ۔ اسی طرح ایک اچھا مضمون پڑھا ہے نجیبہ عارف صاحبہ نے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں کئی کام کی باتیں کی ہیں اور حمید شاہد کی افسانہ نگاری کو سمجھنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ ”مرگ زار“ کے افسانوں کے حوالے سے انھوں نے ایک بنیادی بات یہ کہی کہ اس مجموعے میں متعدد افسانوں کا موضوع کسی نہ کسی عنوان موت بنتا ہے۔ اس نکتے پر بات ہونی چاہیے ۔ لیکن اس سے قبل میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں ‘ وہ یہ کہ ذاتی طور پر میرے لیے راول پنڈی ‘اسلام آباد کے ان دوستوں کی گفتگوئیں بڑی طمانیت کا باعث ہیں ۔ اس لیے کہ یہ ہم عصرتنقید پر ہمارا اعتماد بحال کرتی ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنے ایک معاصر کے کام کو سنجیدگی سے دیکھا اور دیانت کے ساتھ اس کی بابت اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
خواتین و حضرات! اگلے وقتوں میں قومیں ‘ تہذیبیں اور زمانے اپنے کار ناموں ‘ افکار اور شخصیات کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے لیکن ہمارے زمانے میں شناخت کا ایک اور حوالہ سامنے آیا ہے اور وہ ہے آواز۔ جی ہاں ! ہمارے زمانے کی شناخت کا سب سے بڑا حوالہ اس کی آوازیں ہیں‘ کرب و اندہ کی آوازیں جو ایک شور کا روپ دھار کر ہم تک پہنچ رہی ہیں ۔ یہ انسانی تہذیب کے سفر کا عجیب موڑ ہے ۔ سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے اسے چند برس قبل تہذیبوں کا تصادم کہا تھا ۔ لیکن آج کی انسانی صورت حال کا منظرنامہ جو فلسطین ‘ افغانستان اور عراق میں انسانیت کے خلاف بہیمانہ جارحیت سے عبارت ہے‘ ہمیں صاف صاف بتاتا ہے کہ اب تصادم انسانیت اور نیو کیپٹیلزم میں ہے۔ انسانی تہذیب کے سفر کا یہ موڑ ہمیں انسانیت‘ تہذیب اور اقدار کی مکمل نفی کا راستہ دِکھا رہا ہے ۔ تو ظاہر ہے کہ اس سفر کی سوغات تو موت ہی کی شکل میں ہم تک پہنچے گی۔ جی ہاں موت! جو آج شکلیں بدل بدل کرہمارے سامنے آرہی ہے اور ہمارے دوستوں کو‘ عزیزوں کو‘ ہم جیسوں کو ہم سے چھین کر ‘ جھپٹ کر لے جارہی ہے۔ ہر عہد کے ادب کو اپنے عصری تناظر کے حوالے سے کچھ سوالوں کا سامنا ہوتا ہے ‘ تو دیکھنا چاہیے کہ کیا ہمارے عصری ادب کو درپیش سب سے بڑا سوال موت کا سوال تو نہیں ہے۔ محمد حمید شاہد کے اس مجموعے ”مرگ زار“ میں جو بار بار موضوع اور مسئلہ بن کر افسانہ نگار کے سامنے آرہی ہے‘ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ عصری زندگی کا کیسا شعور رکھتے ہےں اور ایک بڑا اور اہم ترین موضوع ہے جو اس وقت سنجیدہ لکھنے والوں سے توجہ کا طالب ہے۔
محمد حمید شاہد کے افسانوں کی بابت سوچتے ہوئے ایک اوربات بھی میں نے محسوس کی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے یہاں عصری زندگی ‘ اس کے مسائل ‘ اس کی انسانی اور غیر انسانی صورت حال کا وسیع سیاق و سباق مرتب ہوتا ہے ۔ یہ نہیں ہے کہ اُنہیں ماضی سے کوئی سروکار نہیں ہے یا یہ کہ وہ مستقبل کی طرف دیکھتے ہی نہیں ۔ نہیں ایسا نہیں ہے ۔ وہ ماضی سے لا تعلق نہیں اور مستقبل کی نفی بھی نہیں کرتے لیکن ماضی ہو یا مستقبل دونوں کی نسبت ان کے یہاں حال سے مربوط ہے اور دونوں کے معنی حال ہی کی نسبت سے متعین ہوتے ہیں۔ مراد یہ کہ حال ان کے یہاں سب سے بڑی reality کے طور پر نظر آتا ہے۔ یہاں کسی قسم کی سبقت کا اظہار یا موازنہ یا تفریق و تقسیم مقصود نہیں ‘ محض عصری تناظر میں بدلتے ہوئے تخلیقی رویوں کی نشان دہی کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ اسّی کی دہائی اور اس کے بعد آنے والے باشعور تخلیق کاروں کا اسلوب اور ابلاغ کا دائرہ ستّر اور ساٹھ کی دہائی کے لکھنے والوں سے مختلف ہے۔ ان کی صورت حال زیادہ کومپلیکس ہے اور اپنے بیان کے لیے نئے پیرائے کا مطالبہ کرتی ہے ۔ ذہین تخلیق کاروں نے اس مطالبے کو سمجھا اور اس چیلنج کو قبول کیا ہے ۔ اس عہد کے لکھنے والوں نے انتظار حسین‘ منشایاد‘ اشفاق احمد‘ رشید امجد‘ سریندر پرکاش ‘ اسد محمد خان‘ انور سجاد‘ بلراج مین را کے تخلیقی تجربے سے سیکھا بھی ہے اور روشنی بھی حاصل کی ہے لیکن اسّی کی نسل نے اپنی راہ بہرحال الگ نکالی ہے۔ اس نسل کے ہاں علامت اور حقیقت کا جو امتزاج نظر آتا ہے‘ وہ اس کے بدلے ہوئے تخلیقی تجربے کامنھ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں علامت فرد کے ذاتی احساس سے آگے نکل کر اجتماع کے وسیع دائرے کی طرف زیادہ سہولت سے سفر کرتی ہے ۔ اس نسل کے لکھنے والوں کی حقیقت نگاری محض بیانیے کے سادگی کا حاصل نہیں ہے بلکہ اس میں معنویت کی الگ الگ سطحیں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ اس لحاظ سے ان لوگوں کی الگ تخلیقی شناخت قائم ہوتی ہے۔ محمد حمید شاہد اسی نسل کے ایک نمائندہ افسانہ نگار ہےں۔ ان کے افسانے اپنے عصری سوالوں سے جڑے ہوئے ہیں اور اپنے ابلاغ کا دائرہ مکمل کرتے ہیں ۔
ابھی منشایاد صاحب نے ایک بات کہی کہ حمید شاہد نے صاحبِ اسلوب بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ اچھی کہانی لکھنے کی کو شش میں لگے رہے۔ یہ بہت اہم بات ہے ۔ ذاتی طور پر میں صاحبِ اسلوب ہونا کسی بھی لکھنے والے کے لیے باعث ِ اعزاز گردانتا ہوں ۔ ہمارے عہد کا بے حد معتبر نام انتظار حسین بلا شبہ صاحبِ اسلوب کی شناخت رکھتا ہے۔ لیکن انتظار حسین کا اسلوب خارج سے قائم نہیں ہوتا بلکہ یہ تو خود ان کی کہانی ‘ ان کے بیانیے‘ ان کی زبان ‘ ان کے طرزِ اظہار اور ابلاغ کے باہمی تال میل سے از خود وضع ہوتا ہے۔ یعنی بالکل فطری انداز ہے انتظار حسین کا۔ لیکن منشایاد صاحب نے جس صاحب ِاسلوب کو condemn کیا ہے وہ فطری نہیں غیر فطری ہے۔ وہ خارج سے اسلوب اٹھا کر کہانی میں ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے۔ محمد حمید شاہد یقینا ایسا نہیں کرتے۔ وہ کہانی کو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلوب ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا مسئلہ تو کہانی ہے۔ ایسی کہانی جس سے وہ اپنی اور اپنے معاشرے کی زندگی کے معنی جان سکےں‘ اُسے سمجھ سکےں۔ یہ فرد اور اجتماع کو ایک نقطے پر مرتکز کرکے دیکھنے کی سعی ہے ۔ جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کام ہما شما کے بس کا نہیں ہوتا۔ ایک جینوئن اور سچا تخلیق کار ہی خود کو اس تجربے کے لیے تیار کر سکتا ہے ۔ اس خوب صورت تقریب کے انعقاد پر میں ذاتی طور پر بہت خوش ہوں اور محمد حمید شاہد کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میں حلقہ ءارباب ذوق ‘اسلام آباد کے احباب کا اور آپ سب کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اس میں شرکت کا موقع فراہم کیا گیا۔
( حلقہ ءارباب ذوق ‘اسلام آباد کی ” مرگ زار“ کے لیے تقریب ‘ منعقدہ اکادمی ادبیات پاکستان‘ اسلام آباد میں کی گئی گفتگو )

٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Followers