Sunday, March 15, 2009

پروفیسر فتح محمد ملک

پروفیسر فتح محمد ملک
بند آنکھوں سے پرے‘ جنم جہنم اور مرگ زار

محمد حمید شاہد ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کے خوگر بھی ہیں اور دل کی آنکھ کھولنے میں کوشاں بھی۔ وہ عصری زندگی کے مصائب پر یوں قلم اٹھاتے ہیں کہ عصریت اور ابدیت میں ماں بیٹی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ ان کی کہانیاں شہر وجود کے خارجی احوال و مقامات کی سیر بھی کراتی ہیں اور حاضر و موجود کا طلسم توڑ کر غائب اور نارسا کی جستجو میں ان گنت گہرے خیالوں کو بھی جنم دیتی ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے محمد حمید شاہد نے ملا وجہی سے لے کر انتظار حسین تک ”سب رس“ سے لے کر ”شہر افسوس“ تک اردو فکشن کے تمام تر اسالیب کو سوچنے سمجھنے اور دیکھنے بھالنے کے بعد افسانہ نگاری کی اقلیم میں قدم رکھا ہے۔
محمد حمید شاہد کے افسانوں کی پہلی کتاب”بند آنکھوں سے پرے“ میں ہر دو روایات الگ الگ اپنا جادو جگا رہی ہیں” برف کا گھونسلا“ اور ”مراجعت کا عذاب“ میں جہاں وہ حقیقت نگاری کے اسلوب کو فنی مہارت کے ساتھ برتتے ہیں وہاں” آئینے سے جھانکتی لکیریں “ اور ”اپنا سکہ“ میں ہمیں شہر باطن کے شہر کی سیر کراتے اور کرداروں کے غیر مرئی وجود کا تماشائی بناتے ہیں ۔ محمد حمید شاہد کے افسانوں کے دوسرے مجموعہ”جنم جہنم“ میں خارجی حقیقت نگاری اور باطنی صداقت پسندی کے یہ دو اسالیب باہم دگر آمیز ہونے لگتے ہیں۔ ”نئی الیکٹرا“ ”ماخوذ تاثر کی کہانی“ اور جنم جہنم “ ہمارے افسانوی ادب کی اس نئی جہت کے نمائندہ فن پارے ہیں۔محمد حمید شاہد فلسفہ و تصوف میں اپنے انہماک کو مادی زندگی کے مصائب و مشکلات سے فرار کا بہانہ ہر گز نہیں بناتے ۔ چنانچہ اسی کتاب میں ‘انہی افسانوں کے پہلو بہ پہلو ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال پر ”تماش بین“ اور ”واپسی“ کی سی دل پگھلا دینے والی کہانیاں بھی موجود ہیں ۔ وہ حقیقت کے باطن اور باطن کی حقیقت تک رسائی کے تمنائی ہیں ....
نائن الیون کے پس منظر میں محمد حمید شاہد نے خوب صورت افسانے تخلیق کرکے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے ۔ میں ان کے افسانوں کا دیرینہ مداح ہوں اور ان کے افسانے محبت اور توجہ سے پڑھتا ہوں ۔” مرگ زار“ جیسی کہانیاں موجودہ عہد کا نوحہ ہیں ۔ ان کے ہاں تہذیبی شناخت کا رویہ بہت نمایاں اور قابل قدر ہے ۔ دوسرے موضوعات کے علاوہ ان کے ہاں غیرت و تقدس کی موت کی کہانیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ”برشور“ اور”رُکی ہوئی زندگی“ جیسی کہانیاں تخلیقی جوہر سے اس قدر بھرپور ہیں کہ اگر آج کے عہد میں بیدی اور منٹو ہوتے تو محمد حمید شاہد ان سے بھی داد پاتے ۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Followers