Sunday, March 15, 2009

ڈاکٹر نجیبہ عارف


ڈاکٹر نجیبہ عارف
”مرگ زار “کے افسانے

زندگی موت کی امانت ہے۔ اس لیے زندگی سے محبت کرنے والے لوگ ، موت کے زیر بار احسان رہتے ہیں۔ یہ ایسی کشش ہے جس کے دائروں سے نکل بھاگنا ان لوگوں کے لیے سہل نہیں، جو زندگی کو ہر پہلو سے چھو کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ موت ایک اسرار ہے اور اسرار اپنی طرف بلاتے ہیں، آواز دیتے ہیں۔ حمید شاہد کی کتاب، ”مرگ زار“ اسی آواز پر لبیک کہتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اس کتاب میں کل پندرہ کہانیاں ہیں۔ اور تقریباً ہر کہانی میں موت کی آہٹ ہے۔ جذبوں کی موت، قدروں کی موت، چھوٹی بڑی انسانی مسرتوں کی موت،وعدوں کی موت، ارادوں کی موت، خوابوں کی موت اور سب سے بڑھ کر جیتے جاگتے، زندہ لہو سے گرمائے ہوئے بدنوں کی موت جس کی اذیت محض اس خیال سے کم نہیں ہو سکتی کہ جسم کی موت سے انسان نہیں مر سکتا۔ موت انسانی ذہن و خیال اور جسم کی حرکت کے خاتمے کا نام ہے۔کیونکہ عام عقائد کے مطابق، جسمانی موت کے بعد اس کا خیال اگر متحرک ہو گا تو اس حرکت کی نوعیت انفعالی ہو گی، فاعلی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ موت کا تصور ایک احساس محرومی سے آشنا کر دیتا ہے۔ زندگی دامان ِ خیال ِ یار کی طرح ہاتھ سے چھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ریت کے ذروں کی طرح مٹھیوں سے چھن چھن کر گرتی ہوئی۔ ہاتھ میں صرف ایک احساس ِ زیاں کی تلچھٹ باقی رہ جاتی ہے۔
”مرگ زار“کی بیشتر کہانیاں اسی تلچھٹ کو کریدتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کہانیوں کے ہاتھوں میں کہیںسوالوں کی تیسیاں، کہیں تحیّر کی سوئیاں، کہیں بے بسی کی چھینیاں اور کہیں احتجاج وبغاوت کی کسیّاںہیں۔ یہ اقرار و انکار کے مخمصے میں پھنسے ہوئے انسان کی بے چارگیوں کا آئینہ ہیں۔ ایسا انسان جسے سادہ اور معصوم زندگی کے لطف و اہتزازکی تلاش بھی رہتی ہے اور اس شعور و آگاہی کا لپکا بھی ہے جو اس معصومیت کی قیمت پر ملتی ہے۔ اکیسویں صدی میں ایک چھوٹی مچھلی کے ٹرانس پی¿رنٹ پیٹ میں رہنے والا انسان، جو بڑی مچھلیوں کی نقل و حرکت بھی دیکھ سکتا ہے اور ان کے ارادے اور نیت بھی سمجھ سکتاہے۔ اسے اپنے میدان ِ عمل کی تنگ دامانی کا احساس بھی ہے اور صور تحال کی نزاکت کا ادراک بھی۔ بھینس بننے سے انکار بھی ہے اور لاٹھی کی طاقت کا اندازہ بھی۔ وہ کبوتر کا تنِ نازک سہی مگر اسے آنکھیں بند کرنا پسند نہیں۔ اکیسویں صدی کی چھوٹی قوموں کے افراد جو اپنے گردو پیش کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور اپنی اپنی تہذیب و ثقافت ، لسانی و علاقائی شناخت اور مخصوص روایات و اقدار کو ایک بے ہنگم اور بے شکل و صورت ملغوبے کے بلیک ہول میں گرتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں، جس اندوہناک کربِ بے بسی سے دوچار ہیں، اس کی ایک واضح اور نمایاں جھلک اس کتاب میں دکھائی دیتی ہے۔
پندرہ میں سے چار کہانیوں کے تو عنوان ہی سے موت جھلکتی، بلکہ ٹپکتی ہے۔ ”مرگ زار“،” موت کا بوسہ“،” موت منڈی میں اکیلی موت کاقصہ“اور” دکھ کیسے مرتاہے“ ایسی کہانیاں ہیں جو اپنے تیز ناخنوں سے اپنا ہی کلیجہ چھیل چھیل کر ہی لکھی جا سکتی ہیں۔
”مرگ زار“ تیزی سے رنگ بدلتی دنیا کے اس اضطراب کی نقش گری ہے جس میں
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
وقت کے جبر میں الفاظ کیسے اپنا اعتبار ہی نہیں ، مفہوم بھی کھو بےٹھتے ہیں اور وقت کا جبر بھی کوئی صدیوں کی بات نہیں۔ چند سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے اقدار و روایات کا چہرہ کیا سے کیا ہو گیا ہے۔ واقعات جس عجلت سے رونما ہو رہے ہیں اس سے محسوس ہونے لگا ہے کہ کسی نہ کسی کا انجام قریب ہے۔ مگر کس کا انجام؟ شاید ایک عہد کا ، شاید ایک نظریے کا، شاید ایک دستورِ حیات کا، شاید ایک اندھی قوت کا۔ سب کے اپنے اپنے خواب ہیں اور اپنا اپنا خیال۔ مصنف کا خیال کیا ہے، کہانی سے یہ معلوم نہیں ہوتا مگر وہ بے قراری ضرور دکھائی دیتی ہے جو ہر انجام سے ذرا پہلے پھیل جایا کرتی ہے۔ وہ آثار ضرور نظر آتے ہیں جو بعد میں ایک واضح خیال اور پھر ایک خواب اور پھر ایک جوشِ جنوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ کہانی کے آخری جملے اس اندیشے کی تصدیق کرتے ہیں:
”ماں نے ماسی کے اٹھے ہوئے ہاتھ جھٹک کر گرا دیے اور اسے رونے سے منع کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہیدوں پر رویا نہیں کرتے۔ میں ماں کے حوصلے پر دنگ اور اس کی سادگی پر برہم تھا۔ ۔۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میں اندر سے کافر ہوتے ہوئے بھی اسے ٹوک نہ پاتا تھا۔ ۔۔ مگر یہ تو تب کی بات ہے جب ایمان اور زمین کی کوئی وقعت تھی۔ اب تو ماں روتی ہے اور رلاتی بھی ہے۔اتنا زیادہ اور اتنے تسلسل سے کہ میں بھی رونے لگتا ہوں اور بچھڑے ہوو¿ں کو یاد کرنے بیٹھ جاتا ہوں۔ میںبچھڑے ہووں کو اتنا یاد کرتا ہوں کہ اندر کا کافر دل پسیج کر ایمان اور زمین سے وابستہ ان جذبوں کو اپنے ہی اندر سے ڈھونڈ نکالتا ہے، جو وہاں کبھی تھے ہی نہیں۔“
کہانی کا یہ اختتامیہ دراصل اس کتاب کابھی اختتام ہے۔ یہ اختتام بالکل ویسا ہی ہے جیسے علامہ اقبال اپنی ہر نظم میں حضرت انسان یا مسلمانوں کو اچھا خاصا آئینہ دکھانے کے بعد اس کاانجام اس قدر رجائی انداز میں کرتے ہیں کہ پیشین گوئی کا سا لہجہ اپنا لیتے ہیں۔ محمد حمید شاہد ایک تخلیق کار ہے اور تخلیق کے لمحوں میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جو لکھنے والے کے ہاتھ سے ، قلم خود چھین لیتا ہے اور جو چاہتا ہے لکھ دیتا ہے۔ تخلیق کار خود ششدر رہ جاتا ہے کہ یہ مجھ سے کیا لکھا گیا۔ ہوسکتا ہے محمد حمید شاہد کی اس کہانی کے یہ اختتامی جملے بالکل شعوری ہوں اور التزاماً لکھے گئے ہوں لیکن اس عہد بے اماں میں ایمان اور زمین سے وابستہ جذبوں کا اعتراف ایسی جرات رندانہ ہے جسے صرف شک کا فائدہ دے کر ہی معاف کیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ خیال ضرور پریشان کرتا ہے کہ اگر مصنف نے اس خیال کو واقعی عام کر دیا تو انجام اور بھی قریب آجائے گا۔ امید ہے مصنف کے احباب انہیں اس فعل سے روکے رکھیں گے۔
”موت منڈی میں اکیلی موت کا قصّہ“ دکھ اور شدت احساس کی اس انتہا پر بیٹھ کر لکھی گئی کہانی ہے جہاں دکھ ، طنز کی تلخی میں ڈھل جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کے کورے کاغذ پر ایک اکیلی موت کا قصہ کیا سجے گا جب کہ ”تھوک میں مرتے انسانوں کے خون کی باڑھ “ ابھی منتظر ہے کہ اس کی سرخی جمے۔ مرگ انبوہ کے جشن میں ایک اکیلی موت کا نوحہ کیا معنی رکھتا ہے؟ اجتماعی سانحوں میں فرد کی ذات کیسے بے توقیر ہو جاتی ہے، حمید شاہد نے اپنے عہد میں آنے والی ہر قیامت کی چاپ کو اپنے دل پر دھمکتے محسوس کیا ہے۔
”موت کا بوسہ “ میں وہ لکھتا ہے:
”ایک لکھنے والا جب لکھتا ہے تو فوراً ہی لکھنے نہیں بےٹھ جاتا۔ پہلے وہ حیرت سے زمانے کو دیکھتا ہے۔۔۔ اتنی حیرت سے کہ وہ سنسنی بن کر اس کے بدن میں دوڑ جاتی ہے۔ ۔۔ تب کہیں اس کے لفظوں کو زمانہ حیرت سے دیکھتا ہے۔ “
زمانہ اس کے لفظوں کو حیرت سے دیکھے یا نہ دیکھے مگر ان میں و ہ سنسنی ہی نہیں ، وہ اذیت بھی دکھائی دیتی ہے جو زمانے کو دیکھ کر اس کے دل میں برچھی کی طرح اتر رہی ہے۔
کتاب کی سات کہانیاں اگر چہ زندگی کے دیگر متنوع پہلووں کا احاطہ کرتی ہیں مگر ان میں موت کا کوئی نہ کوئی بہروپ ضرور دکھائی دیتا ہے۔ ”ادارہ اور آدمی“ ایک مرتے ہوئے ادارے، اور کچلی ہوئی کمزور قوموں کی آخری رسومات کی تقریب کا قصہ ہے۔ اقتصادیات کے جال میں پھڑکتے ہوئے ناصبور کبوتروں کی کہانی۔ پتلیوں کی مانند کہیں اور سے ہلائی جانے والی ڈوروں میں بندھے انسانوں کے رقصِ غلامی کی ایک جھلک۔ وہ دن گئے جب غاصب لاو لشکر لے کر ، تیر وتفنگ سے لیس ہو کر، کمزور ملکوں اور قوموں پر چڑھائی کرتے تھے۔ اب تو وہ عالمی تجارتی کمپنیوں اور آزاد تجارت کے ہتھیار لے کر ایکسپرٹ اور کنسلٹنٹ بن کر آتے ہیں اور اداروں کو اندر سے کھا جاتے ہیں۔ قومیں اپنے قدموں پر کھڑی کھڑی ، دیمک زدہ عصا کی طرح اچانک زمیں بوس ہو جاتی ہیں۔ وسائل اور اختیارات تک سود میں ادا کرنے پڑ تے ہیں۔ جیسے کوئی گھنا پیڑ گرتا ہے تو کتنی ہی چیونٹیاں، گلہریاںاور چڑیاں بے گھر ہوجاتی ہیں، اسی طرح ایک ادارے کی تباہی سے کتنے گھروں میں بھوک اور مایوسی کا غلبہ ہو جاتا ہے۔کتنے آدمیوں کی زندگیاںرہن رکھی جاتی ہیں۔ ان باتوں کا حساب رکھنے کی کس کو فرصت ہے ۔ حمید شاہد نے اس کام کو فرض کفایہ سمجھ کر ادا کیا ہے۔
”سورگ میں سور“، عالمی گاوں آباد کرنے کی خواہش میں بستی ہوئی بستیاں اجاڑ دینے والی مرگ آثار تھوتھنیوں کی کہانی ہے۔معاصر صورت حال کے بیان کے لیے مصنف نے بکریوں ، کتوں اور سوروں کے استعارے جس خوبی سے بیان کیے ہیں وہ اس کی فنی پختگی اور اظہار کے وسیلوں پر قدرت کا مظہر ہیں۔ ’ ’سورگ میں سور“ کا علامتی انداز اپنی جگہ نہایت مکمل اور بے ساختہ محسوس ہوتا ہے اور کہیں بھی تفہیم و ابلاغ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرتا۔ یہ ایک نسل کی کہانی ہے نہ ایک ملک یا قوم کی۔ یہ اس روئے زمین پر رونما ہونے والے ایک عہد ِ زیاں کی کہانی ہے۔ اس عہد کی جس میں:
”اور اب یہ ہو چکا ہے کہ کتے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ ۔۔ بہت زیادہ اور بہت قوی۔۔۔ اتنے زیادہ کہ ہمارے حصے کا رزق بھی کھا جاتے ہیں۔ اور اتنے قوی کہ ان کی زنجیریں ہماری ہتھیلیوں کو چھیل کر ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں۔ یہ کتے ہمارے کھیت اجاڑنے والوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ ۔۔ عادی، خوف زدہ یا پھر ان ہی جیسے۔ ممکن ہے ان پلیدوں کے بار بار بدن تان کر کھڑا ہونے کے سبب کوئی سہم ان کے دلوں میں سما گیا ہو۔ معاملہ کچھ بھی ہو صورت احوال یہ ہے کہ تھوتھنیوں والوں کو غراہٹوں کی اوٹ میسر آگئی ہے۔ کتے دور کھڑے فقط غرائے جاتے ہیں۔ ہم سے ذخمی ہتھیلیوں میں بلم، برچھیاں اور کلہاڑیاں تھامی ہی نہیں جا رہیں لہٰذا ہم خوف اور اندیشوں سے کانپے جاتے ہیں۔ ۔۔ اور کچھ یوں دکھنے لگا ہے کہ جیسے اس بار تھوتھنیوں والے ، انھی کتوں کی غراہٹوں کی محافظت میں ہمارے سارے کھیت کھود کر ہی پلٹیں گے۔ “
یہ اعتراف شکست ہے یا صور ت احوال واقعی، اس بات سے قطع نظر اس تمثیل کا اطلاق کہاں کہاں نہیں ہوتا۔ حمید شاہد نے اس کہانی میں علامت سے معنویت ہی نہیں بلکہ ابلاغ کی ایک ایسی سطح بھی اخذ کی ہے جو ہر اعتبار سے قابل رشک ہے۔
دوسری کہانیاں بھی کسی نہ کسی مرگ کا بیانیہ ہیں۔
”معزول نسل“ میں کچے سے پکے تک کے سفر میں گم ہوجانے والی مسرتوں اور وفات پاجانے والی راحتوں کے نشان ہیں۔
”گانٹھ“ پرانی امیدوں اور خوابوں کی راکھ سے نیا جنم لینے والے آگ کے کیڑے کی داستان ہے جو ایک اجتماعی سانحے کی آتش میںدھل کر نکلا ہے۔ وہ ایک نیا انسان ہے جسے اپنی پہچان اور قیام کے قرینے نئے سرے سے طے کرنے پڑے ہیں۔ اس فکری زاویے کے حوالے سے اس کہانی کا ذائقہ ”مرگ زار“ سے ملتا جلتا ہے تاہم ایک ہی موضوع کو نہایت مختلف اور متنوع ٹریٹ منٹ کے ذریعے نیا رنگ دیا گیا ہے۔
”تکلے کا گھاو“ مرتی ہوئی قدروں اور شکستہ رشتوں کا نوحہ ہے۔
”لوتھ“ ایک جیتے جاگتے انسان کے اندر سے ڈھے جانے کے عمل کی نقش گری ہے۔
اور ”برشور“ روئے زمین پر آسمانوں کی طرف دیکھتی ہوئی زندگی کے جرعہ جرعہ، قطرہ قطرہ، خشک ہوجانے کی دل دہلا دینے والی تصویر ہے۔ اس کہانی کا لوکیل اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس حوالے سے اردو افسانے کی فضا میں یہ کہانی ایک نئے اور دلدوز موضوع کا اضافہ ہے۔ ایتھوپیا اور صومالیہ کی بھوک پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر ہمارے اپنے خطہ¿ بلوچستان میں خسک سالی کا عفریت کس کس طرح انسانی زندگیوں اور مسرتوں کا لہو پی رہا ہے اس بارے میں کوئی افسانہ کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ مصنف نے اگرچہ ایک غیر جانبدار راوی کی طرح یہ ساری حکایت بیان کی ہے مگر برشور مصنف کی طرح اس کہانی کے ہر قاری کا پیچھا کرتا ہے اور غالباً یہی مصنف کا مقصد بھی ہے۔
باقی بچی ، ایک تہائی سے بھی کم یعنی صرف چار کہانیوں، ”رکی ہوئی زندگی“، ”پارینہ لمحے کا نزول“ ”آٹھوں گانٹھ کمیت“ اور ”ناہنجار“میں بچی کھچی، ٹوٹی پھوٹی ، ادھ پچدّی زندگی کو تھامنے کے لیے ہاتھ پاو¿ں مارنے کے منظر ہیں۔ بیوی کے گردگھومتی ان کہانیوں میں کشش اور گریز کی ساری قوتیں باہم دست وگریباں دکھائی دیتی ہیں۔ کھلی ہوئی آنکھیںجب سامنے کے روح فرسا مناظر سے تھک جائیں تو پل بھر کو پلکیں موند لینے سے راحت ملتی ہے اور دوبارہ دیکھنے کی اہلیت تازہ دم ہو جاتی ہے۔ یہ چاروں کہانیاں، پلکیں موند لینے کے اسی وقفے کی عکّاس ہیں۔
حمید شاہد کی ان کہانیوں کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ موت ان میں محض ایک نجی اور ذاتی احساس کی صورت جلوہ گر نہیں ہوتی۔ اگرچہ موت کے بارے میں ان کے احساسات میں اتنی شدت ہے کہ اس کا بیان کرتے ہوئے ایک حسی تجربے کی آگ کی لپٹیں تک دکھائی دیتی ہیں لیکن یہ فقظ ذاتی کرب نہیں ہے۔ مرتی ہوئی زندگی کو دیکھ دیکھ کر مرنا اور مر مر کر جینا ان کے گہرے مشاہدے اور اجتماعی کرب و الم کو دل کی لگی بنا لینے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اپنے ارد گردپھیلے ہوئے معاشرتی حقائق ہی کو اپنا موضوع نہیں بنایا بلکہ بین الاقوامی صورت حال کے تناظر میں ایک بالغ فکر انسان کی طرح حالات کا تجزیہ کرنے اور اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرنے کی جرات مندانہ اور کامیاب کوشش کی ہے۔
شدت احساس اور فکری گہرائی کے ساتھ ساتھ تکنیکی تجربات بھی محمد حمید شاہدکی فنی پختگی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے افسانے”مرگ زار“ میںجگہ جگہ رک کر لکھے جانے والے ”نوٹ“ اور وہ اندازے جو وہ قاری کے ساتھ مل کر لگاتا ہے ، اسے ایک مخصوص سمت دینے میں بہت موثر ثابت ہوتے ہیں۔
افراد کی زندگیاں اور نظریات کس طرح اداروں، قوموں ، ملکوں اور بالآخر دنیا بھر کے اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی منصوبوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ زنجیر کی کڑیاں کس طرح ایک دوسری سے پیوست ہو کر ایک ایسا جال بنا دیتی ہیں جس میں دنیا بھر کے معصوم اور سادہ لوح انسان سر کٹے پرندوں کی طرح پھڑپھڑاتے ہیں۔
صید کون ہے اور صیاد کون؟
کون حاکم ہے کون محکوم؟
کون فاعل ہے کون مفعول؟
یہ اور ایسے کتنے ہی سوال ہیں جن کا سامنا اب ہر ایک کو ہے۔ان سوالوں سے نظریں چرا لینا اب کسی کے لیے بھی ممکن نہیںرہا۔ محمد حمید شاہد بھی اپنے افسانوں میں ان سوالوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کااسلوب عام کرتے نظر آتے ہیں۔
عالمی منظر نامے کے تناظر میں ہم اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟؟؟

٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Followers