Sunday, March 15, 2009

Marg Zaar


پروفیسر فتح محمد ملک

پروفیسر فتح محمد ملک
بند آنکھوں سے پرے‘ جنم جہنم اور مرگ زار

محمد حمید شاہد ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کے خوگر بھی ہیں اور دل کی آنکھ کھولنے میں کوشاں بھی۔ وہ عصری زندگی کے مصائب پر یوں قلم اٹھاتے ہیں کہ عصریت اور ابدیت میں ماں بیٹی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ ان کی کہانیاں شہر وجود کے خارجی احوال و مقامات کی سیر بھی کراتی ہیں اور حاضر و موجود کا طلسم توڑ کر غائب اور نارسا کی جستجو میں ان گنت گہرے خیالوں کو بھی جنم دیتی ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے محمد حمید شاہد نے ملا وجہی سے لے کر انتظار حسین تک ”سب رس“ سے لے کر ”شہر افسوس“ تک اردو فکشن کے تمام تر اسالیب کو سوچنے سمجھنے اور دیکھنے بھالنے کے بعد افسانہ نگاری کی اقلیم میں قدم رکھا ہے۔
محمد حمید شاہد کے افسانوں کی پہلی کتاب”بند آنکھوں سے پرے“ میں ہر دو روایات الگ الگ اپنا جادو جگا رہی ہیں” برف کا گھونسلا“ اور ”مراجعت کا عذاب“ میں جہاں وہ حقیقت نگاری کے اسلوب کو فنی مہارت کے ساتھ برتتے ہیں وہاں” آئینے سے جھانکتی لکیریں “ اور ”اپنا سکہ“ میں ہمیں شہر باطن کے شہر کی سیر کراتے اور کرداروں کے غیر مرئی وجود کا تماشائی بناتے ہیں ۔ محمد حمید شاہد کے افسانوں کے دوسرے مجموعہ”جنم جہنم“ میں خارجی حقیقت نگاری اور باطنی صداقت پسندی کے یہ دو اسالیب باہم دگر آمیز ہونے لگتے ہیں۔ ”نئی الیکٹرا“ ”ماخوذ تاثر کی کہانی“ اور جنم جہنم “ ہمارے افسانوی ادب کی اس نئی جہت کے نمائندہ فن پارے ہیں۔محمد حمید شاہد فلسفہ و تصوف میں اپنے انہماک کو مادی زندگی کے مصائب و مشکلات سے فرار کا بہانہ ہر گز نہیں بناتے ۔ چنانچہ اسی کتاب میں ‘انہی افسانوں کے پہلو بہ پہلو ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال پر ”تماش بین“ اور ”واپسی“ کی سی دل پگھلا دینے والی کہانیاں بھی موجود ہیں ۔ وہ حقیقت کے باطن اور باطن کی حقیقت تک رسائی کے تمنائی ہیں ....
نائن الیون کے پس منظر میں محمد حمید شاہد نے خوب صورت افسانے تخلیق کرکے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے ۔ میں ان کے افسانوں کا دیرینہ مداح ہوں اور ان کے افسانے محبت اور توجہ سے پڑھتا ہوں ۔” مرگ زار“ جیسی کہانیاں موجودہ عہد کا نوحہ ہیں ۔ ان کے ہاں تہذیبی شناخت کا رویہ بہت نمایاں اور قابل قدر ہے ۔ دوسرے موضوعات کے علاوہ ان کے ہاں غیرت و تقدس کی موت کی کہانیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ”برشور“ اور”رُکی ہوئی زندگی“ جیسی کہانیاں تخلیقی جوہر سے اس قدر بھرپور ہیں کہ اگر آج کے عہد میں بیدی اور منٹو ہوتے تو محمد حمید شاہد ان سے بھی داد پاتے ۔
٭٭٭

افتخار عارف


افتخار عارف

اردو افسانے کا اہم نام


محمدحمید شاہد بلا شبہ خالدہ حسین‘ منشایاد‘اسد محمد خان‘مظہرالاسلام ‘ رشید امجد‘ مشرف احمد اور احمد جاوید والی نسل کے بعد اُردو افسانے کے منظر نامے میں ظہور کرنے والی پیڑھی میں ایک بہت معتبر اور نہایت لائق توجہ افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ”بند آنکھوں سے پرے“ اور ” جنم جہنم “ کی اشاعت کے بعد ہی جہان ادب میں ان کی تخلیقی توانائیوں کا اعتراف کیا جانے لگا تھا ’اب ”مرگ زار “ کے بعد ان کے قدوقامت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ ان کی زیادہ مشہور کہانیوں کا خمیردُنیا کی بدلتی ہوئی صورت حال اور اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی کی حقیقتوں کے ادراک کے خمیر سے اُٹھا ہے جس میں اظہار کے تمام جمالیاتی مطالبات خوش سلیقگی کے ساتھ بروئے کار لائے گئے ہیں۔
مجموعی طور پر حمید شاہد کی کہانیاں احساس اور جذبے کی قوت سے آگے بڑھتی ہیں ۔ اپنی زمین سے اور اپنی تہذیبی روایت سے تشکیل پانے والی آگہی اور شعور کے ثمرات جا بجا رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں ۔ کہانیوں کے بیانیے میں استعمال ہونے والی زبان کی بھی داد دی جانی چاہیے کہ حمید شاہد کی نثر اپنے خالصتاً نثری آہنگ کے سبب دلآویز بھی ہے اور بہت موثر بھی۔یہی سبب ہے کہ ایک بار آپ کوئی کہانی اُٹھا لیں تو وہ کہانی اپنے نثری آہنگ کی قوت پر آپ کو اختتام تک زنجیر کیے رکھے گی۔
حمید شاہد میرے نزدیک اُن محدود افراد میں ہیں جن سے اُردو افسانے کے وقار و اعتبار میں یقیناً اضافہ ہوگا۔

٭٭٭

منشایاد


منشایاد

افسانے کا معتبر نام: محمد حمید شاہد
محمدحمید شا ہد افسانہ نگار ہیں اوران کی نثری نظموںبلکہ نثموں کی ایک کتاب بھی چھپ چکی ہے لیکن وہ کہانی کونثری نظم یانثم بناناپسند نہیںکرتے۔ یوں توان کی شاعر اورافسانہ نگار کے علاوہ بعض اور بھی ادبی حیثیات ہیںجیسے نقاد،تاریخ نگار اور کالم نویس وغیرہ بلکہ ان کی تخلیقی جہات پر اظہرسلیم مجوکہ کی مرتب کردہ ایک پوری کتاب شائع ہوچکی ہے۔اور اس میںشک نہیںکہ وہ زرخیز ذہن اور فعال طبیعت کے تخلیق کارہیں۔ ان کے سوچنے اورلکھنے کی رفتار بہت تیزہے ۔انہیں ملک اور دنیا کے نئے اورعصری معاملات اورمسائل سے پوری آگاہی ہے اوران کی فکر راست ہے ۔وہ ہنگامی اورسامنے کے موضوعات کوبھی کوفکشن بنانے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہیںہے ۔بلکہ اس سے ان کی تحریروں میں واقعیت ،اثرپذیری اورزور پیداہوجاتاہے۔ ان کے افسانوں کے تین مجموعے شا ئع ہو چکے ہیں ‘بند آنکھوں سے پرے ‘جنم جہنم اور اب نیا مجموعہ” مرگ زار“ جسے اکادمی بازیافت نے کراچی سے شائع کیا ہے ۔ میں نے ان کے دوسرے مجموعہ ”جنم جہنم“ کے بارے میں نے کہاتھاکہ حمید شاہد کے فن ِافسانہ نگاری کی اہم خوبی ہے کہ وہ کسی ایک خاص ڈکشن کے اسیر نہیں ہوئے اور صاحبِ اسلوب بننے کی کوشش میں خود کو محدود نہیں کیا ۔صاحبِ اسلوب اور صاحبِ طرز کہلانے کی خواہش نے اچھے اچھوں کو ضائع کر دیا ۔کوئی موضوع یا مواد خواہ کتنا ہی قیمتی ہوتا اگر ان کے پہلے سے بنائے گئے فنی سانچے میں فٹ نہ ہوتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے مگر اپنے اسلوب میں لچک برداشت نہ کرتے۔ انہیں کہانی سے زیادہ اسلوب عزیز ہوتا۔مگر حمیدشاہد کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ خیال ،مواد اورموضوع کے ساتھ تکنیک اور اسلوب میں ضرورت کے مطابق تبدیلی پیدا کرلیتے ہیں۔ وہ ہررنگ کی کہانی لکھنے پرقادرہیںان کی کہانیاں زمین سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔اپنی تہذیب ،ثقافت اور اقدار کی خوشبولئے ہوئے اورافسانے کی روایت سے گہرا رشتہ رکھتے ہوئے ۔لیکن تازگی اورندرت کی حامل اورایسی پراثرکہ پڑھ لیں تو پیچھا نہیں چھوڑتیں ۔اندر حلول کرجاتی ہیں۔ خون میں شامل ہو جاتی ہیں۔ میںسمجھتاہوںیہ خوبیاںان کے موجود ہ افسانوںمیںبھی موجود ہیںبلکہ انہوں نے کچھ نئے موضوعات اور تجربات بھی شامل کئے ہیںیاان میںاضافہ کیاہے۔ ہمارے ہاں دفتری زندگی پربہت کم لکھنے والوں نے توجہ دی ۔اس موضوع پرقدرت اللہ شہاب ، منیر احمد شیخ اوروقاربن الٰہی کے بعد حمیدشاہد کی کہانیاںقابل توجہ ہیں۔ مرگ زار میں شامل ان کی کہانی ” ادارہ اور آدمی “اس کی ایک عمدہ اور بھرپور مثا ل ہے ۔ موضوعات کی سطح پرانہوں نے بہت سی نئی چیزیں لکھیں۔ وہ کہانی جس پرکتاب کانام رکھاگیا بہت مشکل موضوع تھا اور یہ کہانی نازک ٹریٹمنٹ کاتقاضاکرتی تھی ۔میرے خیال میںیہ کہانی لکھتے ہوئے انہیں بھی خاصی احتیاط اورمشکل کاسامناکرناپڑا ہوگا۔ مگر وہ اپنی بات اورموقف کوتجریدکی دھند سے نکالنے اور بیان کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ا س کہانی کاموضوع جہاداورشہادت جیسا نازک مسئلہ ہے جس کی کچھ عرصہ پہلے تک کچھ اورصورت تھی اب نائن الیون اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے کچھ اورصورت بن گئی ہے۔یہ ایک دہلادینے والی پراثر کہانی ہے ۔اپنے بھائی کی لاش کے ٹکڑے ۔پھراس کتاب میںانہوںنے موت کی اور کئی ایک شکلوں کامطالعہ کیااور اس کے جبر اور انسان کی بے بسی کی مختلف صورتیں دکھائیں ہیں۔ ”موت منڈی میںاکیلی موت کاقصہ“ تومیںنے خود بنتے بھی دیکھی اوراس بات کاشاہدہوں کہ وہ اس کرب اور تکلیف کو ہوبہوگرفت میں لینے میں کامیاب ہوگئے جوکہانی کے جنم گھرمیں ہم سب کوپیش آئی تھی۔ موت کی منڈی کی اصطلاح پنجابی ایکسپریشن ”مویاں دی منڈی‘ ‘ کے قریب اوربہت خیال انگیز ہے ۔اسی طرح ان کی ایک کہانی ”موت کابوسہ“ بھی ایک حقیقی کردار کی کہانی ہے ۔’لوتھ ‘اور’دکھ کیسے مرتاہے‘ یہ سب صدموں او ر دکھوں کی کہانیاں ہیں لیکن آپ ان سب کہانیوں کوکھنگال کردیکھ لیں ان میںاصل نام کہیںنہیںملیں گے۔ یہی وصف ان کہانیوں کوسچی اورحقیقی ہونے کے باوجودفکشن بننے سے نہیںروکتا ۔ اگرچہ اس مجموعے میں مختلف ذائقے کی کچھ اور کہانیاں بھی ہیںجیسے ناہنجار،آٹھوں گانٹھ کمیت اوربرشور،تکلے کاگھاو¿،رکی ہوئی زندگی اورمعزول نسل وغیرہ مگر اس کتاب کی کہانیوں کی زیادہ تعداد موت کے مختلف روپ پیش کرتی ہے۔اسی لئے مصنف کومحسوس ہوا کہ اس بار توکہانیاںاس کاکچاکلیجہ چباکرہی مسکرائیں۔لیکن جس کہانی پریہ مجموعہ اور اس کامصنف بجاطورپرفخرکرسکیںگے وہ ان کی کہانی ”سورگ میںسو¿ر“ ہے۔اسکی کئی پرتیں ہیں ۔واقعاتی اورسامنے کی سطح پربھی اس کی ایک بھرپور معنویت موجودہے اوراس میںجس خوبصورتی سے جزیات نگاری کی گئی اور بنجرزمینوں کی ثقافت،معاملات ،بکریوں اوران کی بیماریوں اورروگوں کے بارے میں جوتفصیلات دی گئی ہیں وہ ان کے وسیع تجربے ،مشاہدے اورمعلومات کا بین ثبوت ہیں ۔پھرجس طریقے سے یہ کہانی ایک علامتی موڑ مڑتی او رسیاسی جبرکی ایک نئی معنویت سے ہمکنارہوجاتی ہے وہ ان کے فن کاکمال ہے۔انہوں نے اس کتاب میںتکنیک اور اسلوب کے کئی ایک نئے تجربات بھی کئے ہیں۔ جیسے راوی اورمتکلم کو ایک دوسرے سے ا لگ کرتے ہوئے کہانی کوروک کر کئی ایک جگہوںپر وضاحتی نوٹس کااضافہ کرنا۔میںسمجھتاہوں کہ افسانے کی نئی اور موجودہ نسل میں حمیدشاہد کانام اورمقام بہت ہی معتبرہے اور ’مرگ زار‘ کے افسانے اس کی بہترین اورخوبصورت مثال ہےں۔٭٭٭

سیّد مظہر جمیل

سیّد مظہر جمیل
مرگ زار اور دوسری کہانیاں

محمد حمید شاہد نے اپنے ایک تازہ مضمون ( دہشت کے موسم میں کہانی کا چلن) میں معاصر کہانی کو بے حسی کے مخمصے میں گرفتار عقل ِعیار کی کارستانی سے تعبیر کیا ہے جو آنکھوں کے سامنے بپا قیامتوں سے آنکھیں چار کرنے سے دیدہ و دانستہ گریز کرتی ہے اور ہم عصر افسانہ نگار اپنے عہد کی شوریدہ سچائیوں کو اپنے حسی اور تخلیقی تجربے کا حصہ بنانے سے مجرمانہ گریز پائی کا شکار ہے کہ اس میں عافیت کی ٹھنڈی چھاﺅںسے نکل کر موت کی زد پر آئی ہوئی زندگی کی سردوگرم سانسوں کے آہنگ کو محفوظ کرنے کا کٹھن وظیفہ انجام دینا ہوتاہے۔ چناں چہ وہ اچھے معاصر کہانی کاروں کی بے حس عافیت کو شی کو نہ صرف تخلیقی تعمل پذیری سے متصادم قرار دیا ہے بلکہ مفادات ِ وابستہ کی کر شمہ سازی کا حاصل بھی۔ وہ لکھتا ہے:
” پہلے معاملہ کچھ اور تھا‘ جو دیکھا اُسے جام جہاں نما بنا لیا اور اُس میں ایک عالم کو دیکھ لیا ۔ تب جو من میں بستی تھی وہی دِل میں دھنستی تھی اورقلم بگٹٹ اپنی منزلوں کو دوڑتا تھا۔ مگر اب جو دیکھتا ہے وہ لکھ نہیں پاتا ۔ یوں لگتا ہے ‘قلم قلم نہیں رہا ‘ رانڈ کا سانڈ اور سوداگر کا گھوڑا ہو گیا ہے ‘جو کھاوے تو بہت مگر چلے تھوڑا تھوڑا۔“
اِنسانی صورت ِ حال کی زبونی سے مجرمانہ اغماض برتنے والے تخلیق کاروں کی گرفت کرتے ہوئے حمیدشاہد مزید لکھتا ہے:
”جس کی پاس قلم کا حیلہ اور تخلیق کی کرامت ہے دہشت کی اس آندھی میںکیسے ہاتھ بازو توڑ کر بیٹھا رہے گا ۔کہانی طلسم اور ولیوںکے سے کمال کا بھید اپنے اندر رکھتی ہے۔ بس ایک تدبیر‘ کہ یہی سچ ہے اور جانیں تو یہ ہماری کہانی کی تقدیر بھی ہے۔ تدبیر یہ ہے کہ دل کڑا کرکے اپنے تخلیقی تجربے کو عصری حسیت سے جوڑدینا ہے ۔ ایک مصری کہاوت ہے‘ من دق الباب سمع الجواب‘ یعنی جو دروازہ کھٹ کھٹکاتا ہے وہ جواب بھی سنتا ہے ۔ شرط کہانی کے باب پر دستک دینے کی ہے جواب ازخود آپ کا مقدر ہو جائے گا۔“
محمد حمید شاہد کے تازہ مجموعے ” مرگ زار“ کے دیباچے میں کم و بیش کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار ہمارے عہد کے ایک اور نمائندہ کہانی کار اور تنقید نگار مبین مرزا نے بھی کیا ہے ۔ انہوں نے حمید شاہد کی کہانیوں میں رواں احساس کرب کا منبع اس مجموعی انسانی ابتلا کو قرار دیا ہے جو اکناف عالم اور ہمارے ارد گرد کی فضاﺅں میں بالخصوص تیر رہی ہے اور جسے حمید شاہد اپنے حسی تجربے میں ڈھال کر کہانی کا روپ دے دیتے ہیں۔مبین مرزا نے اسے محض رسمی اور روایتی افسانہ نگاری سمجھنے کی بجائے افتادگان خاک پر گزرتی ہوئی شقاوتوں کے خلاف استغاثہ رقم کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ایک ایسا تخلیق کار جو ابھی چشم ِ مشاہدہ کی بصارت اور جذب و احساس کی بصیرت سے محروم نہیں ہوا ہے‘ معروضی صورتِ حال سے کیوں کر گریز پائی اختیار کر سکتا ہے۔؟!
اس تناظر میں دیکھیے تو حمید شاہد کی کہانیاں بالخصوص ”مرگ زار“ ، ” گانٹھ“ ،” موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ ایسی کہانیاں ہیں جنہیں معاصر کہانی کے بند دروازے پر دی جانے والی ایسی دستکیں سمجھنا چاہیے جو بے حس ضمیروں پر جمی برف کو پگھلا سکتی ہوں یا نہیں لیکن حمید شاہد نے ان کہانیوںکے توسط سے زبوںحال انسانوںپر توڑے جانے والے ظلم‘ تشدد ‘جبر‘ سفاکیت‘ دہشت اور ہلاکت آفرینیوں کے خلاف تخلیق کے محضر نامے پر اپنا استغاثہ ‘ اپنی گواہی ‘ انحرافی رد ِعمل اور احتجاج ضرور رقم کر دیا ہے اور یوں وہ نوبل انعام یافتہ ادیبہ الفریڈی یلینک کے ہم رکاب ہو جاتا ہے ‘ جوکہتی ہے:
”لکھتے ہوئے میری ہمیشہ یہ کو شش ہوتی ہے کہ کمزوروں کا ساتھ دوں۔ طاقتور کی حمایت ادب کا منصب نہیں ہے۔“
ظاہر ہے ‘ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے کہ اس میں آپ کو عافیت کے نرم و گرم گو شوں کو خیر باد کہنا پڑتا ہے بلکہ یہ تخلیقی عمل بارودی سرنگوں سے پُر وادی ِ اظہار میں سفر کرنے کے مترادف ہے جہاں اندازے کی معمولی سے معمولی فروگزاشت اور غلطی بھی تخلیق اور تخلیق کار کے وجود بھسم کر دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہاں تو اظہار کے وسیلوں کو غیر معمولی حزم و احتیاط سے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جیسے چابک دست سرجن کے ہاتھ میں آلہ¿ جراحت اور مشاق وخلاق مصور کے تصرف میں رنگ بکھرتا ہوا مو قلم۔
” مرگ زار“ ایک ایسی کہانی ہے جو افغانستان کے چٹیل اور سخت کوش معاشرے میں گزشتہ تین عشروں سے جاری وحشت و بربریت ‘ خوں آشامی‘ قتال عظیم اور انسانیت کی تذلیل و شکستگی کی طا غوتی عملداری کے پس منظر میں لکھی گئی ہے ۔ ایک دور وہ تھا جب افغانستان میں کفر اور اسلام کا جہاد فی سبیل اللہ بپا تھا‘ہلاکت و سفاکیت کا ایک آتشیں الاﺅ تھاجس نے نکبت کے شکار معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ روس کی بے دین فسطائیت پر خدائے واحد کی حاکمیت اور دین اسلام کی رحمتوں کا فروغ ہی وہ اعلی نصب العین تھے جو بیک وقت مجاہدین اسلام اور سرکارِ امریکہ کو عزیز تھے کہ وہی اس جہادِ فی الدین کا سب سے بڑا مربی اور حلیف تھا۔ اس آتشیں الاﺅ کو دہکائے رکھنے کے لیے عالم اسلام سے سرفروش مجاہدین کے غول کے غول تھے جو شہادت کی دولتِ بے بہا کی طلب میں قیمتی جانوں کا نذرانہ گزارتے نہ تھکتے تھے۔ یہ عالمی جہاد کا وہ کار زار تھا جو کشمیر ‘ افغانستان ‘ فلسطین ‘ چیچنیا اور بوسنیا جیسے دور دراز خطوں تک پھیلا ہوا تھا اور جہاں کھیتوں کھلیانوں تک مجاہدوں‘ فدائیوں اور حریت پسندوں کے لیے شہادت کی سبیلیں کھولی جا چکی تھیں ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے موسم بدلا کہ جہاد کی عبادت گزاری کو دہشت گردی کی غلیظ گالی کا مترادف قرار دیا گیا۔ اور مغرب کے متمدن معاشروں کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اکنافِ عالم میں ان دہشت گردوں کو ‘ جو کبھی فدائین‘ کبھی مجاہدین اور حریت پسند وں کے القابات سے پکارے جارہے تھے‘ چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ ان کی بستیاں ‘ ان کے شہر‘کھیت‘ کھلیان‘ کچے پکے جھونپڑے‘ عبادت گاہیں‘ اسکول‘ اسپتال غرض سب ٹھکانے نیست و نابود کر دیے گئے۔ عالمی سپر طاقت اور ان کے باج گزارحلیفوں نے افغانستان کے مفلوک الحال باشندوں کے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔
ظاہر ہے موضوعاتی سطح پر یہ ایک نہایت چیختا چنگھاڑتا موضوع ہے جس سے ہلاکت آفرینی کے بے شمار گوشے نکلتے ہیں ۔ اس خون آشام موضوع پر ایک بلند بانگ للکارتی ہوئی کہانی ہی لکھی جا سکتی تھی۔ جس میں نالہ و شیون کی اذیت ناک کراہیں بلند ہوتیں یا حز یمت خوردہ زخموں کی للکاریں ‘ لیکن محمد حمید شاہد نے انتہائی محتاط اسلوب سے کہانی کو فنی دائرے سے باہر نکلنے سے باز رکھا ہے اور کہانی ماجرائیت کی سطح سے لے کر اختتامی فقروں تک فطری اظہار کا زینہ طے کرتی دِکھائی دیتی ہے ۔ واقعاتی سطح پر تو کہانی میں کوئی ندرت نہیں ہے کہ اس زمانے میں ایسے سانحے معمول کی بات تھی۔ ایک نوجوان (مصعب) افغانستان میں بپا جہادی مورچے میں شہید ہوجاتا ہے اور مجاہد تنظیم کے لوگ اس کی لاش کے منتشر ٹکڑے اکٹھے کر کے پشاور لاتے ہیں اور کہانی کے راوی کو جو شہید کا بھائی ہے ‘ اس کی شہادت کی ”خوشخبری“ سناتے اور مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ وہ بھائی کی لاش حاصل کر نے مری سے پشاور تک کا سفر کرتا ہے لیکن جہادی تنظیم والے شہید کی وصیت کے مطابق اس کی لاش کے باقیات کو جلال آباد کے گنجِ شہیداں میں دفن کرنا چاہتے ہیں اور اس کام کے لیے اس کی اجازت چاہتے ہیں ۔ کہانی کا سارا تاروپود ایک بے حس میکانکیت کا اظہار ہے ۔ جہادیوں کے قول و عمل میں شہادت کی دولتِ بے بہا پر مبارکبادیاں ہی مبارکبادیاں ہیں۔ انسانی زندگی کے اتلاف پر دکھ اوررنج کی ہلکی سی لہر بھی نہیں ۔ ایک جیتا جاگتا پرجوش نوجوان جس کے سامنے عالمِ امکان پھیلا ہوا ہے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے لیکن اس کا کٹا پھٹا لاشہ بھی محترم ہے کہ وہ شہید کے ارفع وعالی مقام پر فائض ہو چکا تھا تو وہ ”شہادتیں“ جو نقل مقانی اور ہجرت کے دوران وقوع ہوئی تھیں اور جنہیں بھلانے میں ایک مدت لگی ہے‘ اس شہادت سے کیوں کر مختلف ہو سکتی ہیں ۔ اب وقت گزرنے کے بعد سب موتیں ایک ہی جیسا صدمہ بن کر رہ جاتی ہیں فرق صرف نکتہ ¿ نظر کی تبدیلی کا ہوتا ہے اور اس عقیدے کا کٹر پن انسان سے دل گداختگی کی حرارت چھین لیتا ہے۔ کہانی میں جذباتیت اور سنسنی خیزیت کا احساس نہیں ہوتا۔ بس حزن و ملال کی اتنی ہی کیفیت طاری رہتی ہے جتنی ایک ایسے عمومی واقعے میں ہونا چاہیے تھی اور ایسا کیوں کر ممکن ہو سکا؟ یہ سوال بجائے خود کہانی کے ایک اہم پہلو کی نشاندہی کرتا ہے اور وہ یہ کہ ”مرگ زار میں محمد حمید شاہد نے تکنیکی اعتبار سے ایک ذرا جداگانہ وتیرہ اختیار کیا ہے یعنی فکشن اور نان فکشن کے اختلاط سے فضا سازی کاکام لیا ہے ۔ جو باتیں کہانی میں بیان نہیں کی جاسکتی تھیں انھیں وضاحتوں کے زمرے میں بیان کر دیا گیا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ دونوں حصے ‘فکشن /نان فکشن ایک دوسرے سے مربوط ہو کر کہانی کے مجموعی تاثر کو مزید گہرا کرتے ہیں ۔ بے شک ” مرگ زار“ اس موضوع پر لکھی گئی اچھی کہانیوں میں ضرور شامل کی جائے گی اور اس میں برتی گئی تکنیکی تدبیر کاری کی افادیت اور تاثیریت پر متعلقہ حلقوں میں غور بھی کیا جائے گا۔
اسی طرح حمید شاہد کی کہانی ” گانٹھ“ 9/11 کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورت ِ حال سے جنم لیتی ہے جس میں ایک ایسے پاکستانی ڈاکٹر کی افتاد دکھائی گئی ہے جو کئی عشروں سے امریکا میں آباد چلا آتا ہے اور جس نے اپنے وجود ہی کو نہیںبلکہ جداگانہ شناخت‘ تصورات‘ خیالات اور احساس تک کو امریکی معاشرے میں مکمل طور پر ضم کر دیا ہے ۔ اس نے امریکی خاتون سے شادی کی اور اسے نہ صرف اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی دی بلکہ بچوں تک کو مقامی طور طریقوں ہی پرپروان چڑھانے کی اجازت دی۔ یہاں تک کہ بیوی ہمیشہ ”کیتھرائن“ اور بیٹے ”راجر“ اور ”ڈیوڈ“ ہی رہے ۔ اس نے دنیا کی ہر آسائش اپنے امریکی خاندان کو فراہم کی ‘ اس کا ماضی نہ جانے کب سے فراموش گاری کی گرد میں اٹ چکا تھا کہ 9/11 کی ناگہانی افتاد نے اسے بھی بہت سے سابقہ ہم وطنوں کی طرح شک وشبہ کے خندق میں پھینک دیا اور بالآخر اسے بھی ”اون کنٹری“ میں ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ رشتے ناطے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ چکے تھے ۔ حد یہ کہ بیوی بچے تک مغائرت اور بیگانگیت کا شکار تھے۔ ان کے درمیان صرف ضرورت مندی کا ایک واسطہ رہ گیا تھاکہ بیوی بچوں کا اس سے مطالبہ تھا تو بس اتنا کہ وہ ڈی پورٹ ہونے سے قبل امریکا میں موجود اپنی تمام دولت سے دست برداری کے کا غذات پر دستخط کر دے کہ وہ اس کے بعد فارغ البالی کی زندگی بسر کر سکیں۔ پاکستان آنے کے بعد بھولی بسری بہن اور اس کے بچوں سے ٹوٹے ہوئے رشتے کی بحالی نئی حقیقت پسندیت کو اُبھارتی ہے ۔ بادی النظر میں دیکھیے تو یہ کہانی بھی عالمی سیاست کے تناظر میں لکھی گئی کہانی نظر آتی ہے لیکن بغور دیکھیں تو اس میں بھی انسانی رشتوں کی شکست و ریخت اور تہذیبی و ثقافتی قدروں کی پائمالی اور نامعتبری کا المیہ دکھائی دے گا اور دنیا کی مہذب ترین قوم جو دنیا بھر میں انسانی توقیر ‘ انصاف پسندیت‘ امن و امان کی بحالی‘ عالمی خوشحالی اور تہذیبی فروغ کی سب سے بڑی سرپرست‘ مربی اور وکیل ہے‘ وہی ایک ایسی قوت بن کر اُبھرتی ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ اور حصول کے لیے انتہائی درجہ کی پست ذہنیت‘ تکبر‘ جارحیت اور لاقانونیت کی پرچارک دکھائی دیتی ہے۔ اس کہانی کو بھی محمد حمید شاہد نے نہایت احتیاط اور التزام کے ساتھ لکھا ہے اور حالات و واقعات کی تیزوتند روانی کو قابو میں رکھنے کے لیے ایسی چھوٹے چھوٹے ٹچز(touches) کے ذریعے معنویت کے اسرارپیداکیے ہیںجو سیدھے سادے اسلوب میں مشکل ہو سکتے تھے۔ مثلاً قدیم گھر میں ٹنگی ہوئی مکمل اور نامکمل تصویروں کا ٹچ کتنی ہی ان کہی باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ”موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ ہر چند اسی عالمی تناظر میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں 9/11 کے المناک واقعات افغانستان اور عراق سے بلند ہوتے ہوئے آتشیں شعلوں اور وحشت و بربریت کے بھیانک نظارے پس منظر کاکام دے رہے ہیں۔ لیکن دیکھیے تو اصل کہانی کا ان واقعات و حالات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے ‘سوائے اس حیاتی صورت حال ِکے ‘جس میں ایک عالمی حادثے میں وقوع پذیر ہونے والی لوگوں کی اجتماعی موت جائے واردات سے ہزاروں کوس دور مرنے والے فرد واحد کی موت کو بے دردانہ حد تک بے توقیر اور غیر اہم بنا دیتی ہے۔ دُکھ ‘ افسوس‘ تعزیت اورگریزناکی‘سب رسمیاتِ زمانہ ہیںجس کے اظہار کے لیے بھی مناسب ماحول درکار ہوتا ہے۔ عزاداری بھی کچھ قرینے چاہتی ہے ‘ کوئی کتنا ہی دُکھی اور ماتم گسار کیوں نہ ہو ‘ لوگ مرنے والوں کے ساتھ مر نہیں جاتے ۔ نوحہ گر صرف رسم زمانہ کی ادائیگی کرتا ہے۔ محمد حمید شاہد انسانی رشتوں کی کیسی کیسی بوالعجب صورتوں کو کہانی کا موضوع بناتا ہے۔
”رُکی ہوئی زندگی“ ،” لوتھ“، ” پارینہ لمحے کا نزول“،” تکلے کا گھاﺅ“، ”آٹھوں گانٹھ کمیت“ اور” معزول نسل“ جیسی کہانیاں جہاں تیزرفتاری سے بدلتی ہوئی انسانی صورت حال کی تصویریں دکھاتی ہیں ‘وہیں وہ انسانی رشتوں میں آہستہ خرام اور سبک پا ہونے والی شکست و ریخت کی کہانیاں بھی سناتی ہیں۔ ہر کہانی زندگی کے ایک نئے رُخ ‘ نئے پہلو‘ نئے واقعاتی و حسی ماجرائیت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔
محمد حمید شاہد واردات و ماجرائیت کا کہانی کار نہیں ہے ‘ کسی واقعے اور حادثے کی رپورٹنگ اس کا منصب نہیں ہے۔ وہ توواقعات و حوادث اور افتاد و گداز سے پیدا ہونے والی حسی لہروں کو اپنے تجربے کے انٹینا کی مدد سے اپنے احساس میں جذب کر لیتا ہے اور پھر انہیں تخلیقی طور پر تصویروں کی صورت میں نشر کر دیتا ہے ۔ کہیں یہ تصویریں اپنے منظر‘ پس منظرکے ساتھ رواں دواں دکھائی دیتی ہیںاور کہیں وہ ان کے اقتباس اور پر چھائیوں سے فضا سازی کاکام انجام دیتا ہے کہ رعایت اور علامت نگاری بھی حمید شاہد کی فنی دسترس سے باہر نہیں رہے ہیں۔ اس کی کہانی ”لوتھ“ احساس ہی کی لہروں سے مرتب ہوئی ہے ۔ اس میں جوواقعات بیان ہوئے ہیںوہ بجائے خود کہانی کا مقصود نہیں ہیں ‘بلکہ آخری سطروں میں باپ کی آنکھوںمیں تیرتے ہوئے گھاﺅ کی لکیر ہے جسے باپ اپنے ہی بیٹے سے چھپالینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حمید شاہد تاسف کی اس لکیر کو دیکھ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اسے پوری معنویت کے ساتھ پیش کر دیتا ہے ۔ زخمی باپ کا آپریشن ہوتاہے جس میں اس کے جسم کا ایک حصہ کاٹ دیا جاتا ہے۔ بیٹا یہ سب باپ کی محبت اور اس کی صحت یابی کے خیال سے کرتا ہے لیکن اس سے متعلق فیصلے میں باپ کو شریک نہیں کیا جاتا گویا وہ محض ایک انسانی گوشت کا لوتھڑا ہے ‘احساس اور جذبے سے عاری!
آخر میں افسانہ نگاری میں زبان کے برتاﺅ کے باب میں عرض کرنا چاہوں گا کہ حمید شاہد اس سلسلے میں ذرا مختلف نقطہءنظر اور انداز رکھتے ہیں ۔ وہ علاقائی اور مقامی بول چال کے الفاظ کو اس طرح اپنے افسانے میں گوندھ لیتے ہیں کہ اس سے نہ صرف وہ لفظ تخلیقی علامت بن جاتا ہے بلکہ کہانی کے بنانے میں مقامیت کا جوہر اور اپنائیت کی خوشبو بھی تیر جاتی ہے ‘ یہ ایک قابل ستائش عمل ہے ۔ مجموعی طور پر محمد حمید شاہد کے افسانوں کا مجموعہ ” مرگ زار“ اس کے فنی سفر کی تازہ منزلوں کا سراغ دیتا ہے اور اسّی کی دہائی میں اُفق ادب پر نمودار ہونے والے روشن ناموں میں شمار کراتا ہے۔
٭٭٭

علی محمد فرشی


علی محمد فرشی
حمید شاہد ” مرگ زار“ میں

میں نے محمد حمید شاہد کو نہایت قریب سے اور اس کے فن کو قدرے فاصلے سے دیکھنے کی روش اپنائی ہوئی ہے۔ بالعموم شخصیت کے بہت قریب جانے پر وہی ہولناک منظر درپیش ہوتا ہے جس کا تجربہ چاند پر اترنے والے پہلے آدمی کو ہوا تھا۔ حمید شاہد کا معاملہ قدرے مختلف ہے ۔ میں جوں جوں اس کے قریب ہوتا گیا اس کی شخصیت کا جمال بڑھتا ہی گیا۔ اور جب بھی اس کے افسانے کو فاصلہ بڑھا کر پڑھا اس کے وقار اور اسرار میں اضافہ ہی دیکھا۔
میں نہیںجانتا کہ موت سے اس کا پہلامکالمہ کب ہوا تھا تاہم میں اس سے خوب آگاہ ہوں کہ ”مرگ زار“ تک آتے آتے وہ موت کے اسرار سے بہت سے پردے اٹھا چکاہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس کے افسانوں کی پہلی کتاب ”بند آنکھوں سے پرے“ کے پہلے ہی افسانے ”برف کا گھونسلا“ میں موت در آئی تھی ۔ اس کتاب کا آخری افسانہ ”کفن کہانی “ تھا جب کہ درمیان میں شائع ہونے والی کتاب ”جنم جہنم“ کے بیچ زندگی اور موت کی تجرید کا ہلکورے لیتا سمندر....
ابھی ہم ”جنم جہنم“ کے حوالے سے ذات اور شناخت کے حیرت کدے سے نکل نہ پائے تھے کہ گیارہ ستمبر کی تباہی کا سارا ملبہ اس کے آنگن میں آگرا اور اس کے تہذیبی وجود کو” لوتھ“ جیسی اہم کہانی کے مقابل کر گیا ۔
” زخم تھے تو بہت پرانے مگر بیٹے پر ان کے کھلنے اور حواس پر شب خون مارنے کا واقعہ ایک ساتھ ہوا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ اس کا بیٹا ٹی وی کے سامنے بیٹھا بار بار دکھائے جانے والے وقت کے عجوبہ سانحے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ پہلے ایک طیارہ آیا ¾ قوس بناتا ہوا ...... اور ...... ایک فلک بوس عمارت سے ٹکرا گیا¾ شعلے بھڑک اُٹھے ...... اور ابھی آنکھیں پوری طرح چوپٹ ہو کر حیرت کی وسعت کو سمیٹ ہی رہی تھیں کہ منظر میں ایک اور طیارہ نمودار ہوا۔ پہلے طیارے کی طرح ...... اور پہلی عمارت کے پہلو میں اسی کی سی شان سے کھڑی دوسری عمارت کے بیچ گھس کر شعلے اچھال گیا۔ “
اس منظر میں دوکردار ہیں جو اپنی اصل میں ایک ہی تہذیبی تسلسل کے دو زمانی وقفوں کی علامت بن جاتے ہیں ۔ اس زمانی وقفے کا تعین افسانہ نگار نے کہانی کے عقبی حصے میں فلیش بیک تیکنیک سے کیا ہے جبکہ اس حصے میں خوب مہارت سے ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے بیٹے کی عقبی نشست پر باپ کی موجودگی کو ماضی کی اسی جہت سے جوڑ دیا ہے یوںیہ کہانی ایک سلسلہ¿ واقعات میں جڑتی ہے جس کے تسلسل کا رخ اندوہناک سانحے میں مڑ گیا ہے ۔
یہ کہانی ہماری نصف صدی کی تاریخ میں دو نسلوں کے درمیان پھیلی ہوئی خلیج کا تنقیدی بصیرت کے ساتھ جائزہ لیتی ہے جس میں ہمارے خواب ڈوب گئے ہیں۔ باپ ‘ پاکستان بنانے والی نسل کی نمائندگی کرتا ہے ‘ اور اس کردار کی نفسیات کو بننے کے لیے افسانہ نگار نے ماضی کو حال کا حصہ بناکے زمین کو ایمان اور وجود کا حصہ بنا دیا ہے۔ اس ماضی میں بھی ایک ریل اپنی ساری دہشت بسین نالے میں انڈیل دیتی ہے ۔قدموں تلے کی زمین چھینی جا رہی تھی یا پھر نئی زمینوں کی پکار پرانے رشتوں کی ساری طنابیں توڑ رہی تھی ۔
”ریل کے رکتے ہی دہشت کا منھ زور ریلا اُمنڈ پڑا جو بسین کے کنارے کنارے دورتک پھیل گیا تھا۔ اوپر کہیں شدید بارشیں ہوئی تھیں ¾ یہاں بھی مینہ کم نہ برسا تھا اور ابھی تک پھوار سی پڑ رہی تھی مگر اوپر کی بارشوںنے نالے کو دریا بنا دیا تھا۔ حوصلے تو پہلے کے ٹوٹے ہوئے تھے‘ آگے پُل ٹوٹ گیا تھا اوربلوائی کسی بھی وقت ان تک پہنچ سکتے تھے۔ بسین کا بپھرا ہوا پانی سامنے تھا ¾ بلوائی نہیں پہنچے تھے مگر ان کی دہشت پہنچ گئی تھی۔شوکتی ہوئی اور خوخیاتی ہوئی دہشت.... خوف سینوں سے سسکاریاں کشید کرتا تھا....اتنی زیادہ اور اس تسلسل سے کہ یہ سسکاریاں بسین کے پانیوں کے شور شرابے پر حاوی ہو رہی تھیں.... اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ تھاما ¾ ننھی بیٹی کو کندھے سے لگایا .... بیوی کو نگاہ سامنے کنارے پر جمائے رکھنے کی تلقین کی اور خود بھی پار دیکھ کر آگے بڑھنے لگا....اس کی بیوی کو آٹھوں آدھے میں تھا۔ پانی دیکھ کر اُسے چکر آنے لگتے تھے ¾ ایک قدم آگے بڑھاتی تھی تودو پیچھے کو پڑتے تھے۔ وہ سامنے کنارہ دیکھتی تھی مگر اُچھلتا چھل اُچھالتا منھ زور پانی اس کا دھیان جکڑ لیتا تھا.... حتی کہ وہ چکرا گئی ¾ پاﺅں اُچٹ گئے اور وہ پانیوں پر ڈولنے لگی۔اس نے بیوی کو چکرا کر پانی پر گرتے ہوئے دیکھا تو اُسے سنبھالنے کو لپکا۔ ننھی بیٹی جو کندھے سے لگی تھی اس پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ بیوی کو سنبھالتے سنبھالتے بیٹی پانیوں نے نگل لی ۔ اس نے بہت ہاتھ پاﺅں مارے مگر وہ چند ہی لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہو گئی۔“
وہ جو اُس تجربے کوپوری شدت سے محسوس ہی نہیں کر سکتا تھا جو بسین میں بہت کچھ بہا دینے کے بعد پہلی والی نسل کے شعور کا حصہ بنا تھا اور اس کا سبب یہ ہے کہ بیٹے پر نئی زمین پر اترنے کی لذت کا ذائقہ اترا ہی نہ تھا۔ وہ مہاجر تو تھا مگر ہجرت کے تجربے سے آگاہ نہ تھا ۔ اس بات کی وضاحت کہانی کے اس اقتباس سے ہو جاتی ہے :
”وہ عین بسین کے وسط سے دُکھ سمیٹ کر واپس پہلے کنارے پر پلٹ گئے۔ وہیں انہیں رات پڑ گئی اسی کنارے پر قافلے کی عورتوں نے رات کے کسی سمے اپنی اپنی اوڑھنیوں سے اوٹ بنائی اورسسکیوں کے بیچ ایک معصوم کی ننھی چیخوں کا استقبال کیا۔“
اب اس تناظرمیں کہانی کے پہلے جملے کو پڑھیے۔
”اس کی ٹانگیں کولہوں سے بالشت بھر نیچے سے کاٹ دی گئی تھیں۔“
یاد رہے‘ اس کی ٹانگیں کٹوانے کا فیصلہ اس کے بیٹے کا تھا جس نے غیر ملکی ڈاکٹروں کی تجویز بند آنکھوں سے قبول کر لی تھی ۔ یہاں استعاراتی پیرایہ¿ اظہارمیں باپ‘ بیٹا‘ بسین نالہ ‘ ملکی اور غیر ملکی ڈاکٹر ز‘ زخم ‘ کٹی ہوئی ٹانگیںاور کہانی کا عنوان لوتھ جیسے الفاظ حمید شاہد نے اس فنی ہنر مندی کے ساتھ استعمال کیے ہیں کہ کہانی الجھاو¿ اور ابہام سے دامن کشاں ہو کر جمالیاتی لپک کے ساتھ ترسیل کی بلند سطح کو چھو لیتی ہے۔
ایسی کہانیاں بالعموم لکھنے والے کو مشکل میں ڈال دیتی ہیں ‘کیوں کہ قاری بہر طور اس کا نقطہ ¿ نظر معلوم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ایک قسم کے لکھاری تو ایسی ذمہ داری قبول ہی نہیں کرتے اور قاری کو گو مگو کی دلدل میں اتار کر چین کی نیند سوتے ہیں جبکہ کچھ ذمہ داری کے احساس سے مجبور ہوکر واقعات کے درمیان سے غیر ضروری طور پر سر باہر نکال کر خطاب شروع کر دیتے ہیںاور کہانی کی سطح پر خراشیں ڈال دیتے ہیں۔ حمید شاہد کا کمال یہ ہے کہ اس نے نقطہ ¿ نظر کو ملفوف بھی رکھا ہے اور بیٹے کی سوچ کو ایک سنجیدہ سوال کا جال بنا کر سطح پر پھیلا بھی دیا ہے جس میں قاری کا ذہن ایک بار ضرور الجھتا ہے ۔
”پہلے پہل یوں ہوا تھا کہ ٹی وی پر دونوں عمارتوں سے جہاز ٹکراتے دیکھ کر وہ بھی قہقہہ بار ہوا ¾ ہوتا چلا گیا.... حتی کہ آنکھیں کڑوے پانیوں سے بھر گئیں ۔ جب بار بار نشر کیا جانے والا منظراس کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوگئیں تووہ عجیب طرح سے سوچنے لگا تھا۔ منظر میںتوجہاز جڑواں فلک بوس ٹاورز کے بیچ گھستے تھے مگر اُسے یوں لگتا جیسے وہ دونوں ٹاورز لوہے اور سیمنٹ کے نہ تھے اس کی اپنی ہڈیوں اور ماس کے بنے ہوئے تھے۔“
کہانی ختم ہوتی ہے تو کئی سوالات قاری کے سامنے آکھڑے ہوتے ہےں۔ یہ سوالات بسین نالے سے اٹھتے ہیں اوراس منظر سے جس میں شعلے بھڑک اٹھے تھے ۔ اس حیرت سے جو بیٹے کے چہرے پر کھنڈ گئی تھی اور اس ردعمل سے بھی جو باپ کوبالآخر دہشت زدہ کر گیا تھا ۔ آنکھوں میں کڑوے پانی تھے۔ بہت کچھ بسین کے پانیوں میں بہہ گیا تھا۔ جو باقی بچا تھاا سے ان کڑوے پانیوں نے بہا دیا تھا کیا اب بھی کچھ باقی بچ گیا تھا ؟....ایک لوتھ یا .... اس” یا “کا جواب اس سلسلے کی دوسری کہانی”گانٹھ“ کی صورت سامنے آتاہے۔
افسانہ ”گانٹھ“ کا مرکزی کردار ڈاکٹر توصیف ہے ۔ اس کی آنکھیں امریکی معاشرے کی ظاہری چکا چوند سے چندھا گئی تھیں ۔ انسان دوستی اور روشن خیالی کے رنگین اشتہار ات نے اسے اپنی ’فرسودہ‘ شناخت سے بر گشتہ کر دیا تھا اور اس نے اپنے نام کوتوصیف سے بدل کر طاو¿ژ کر لیا تھا ۔یوںخود ساختہ عالمی شہریت اختیار کر لی تھی۔ اسی دوران اس کی شادی کتھرائن سے ہوئی اور اس سے اُس کے دو بیٹے راجر اور ڈیوڈ.... اس کی پر امن روشن خیال اور انسان دوست شخصیت کے خواب شاید یو نہی پھولتے پھلتے رہتے ‘ لیکن گیارہ ستمبر کے دھماکوں میں جہاں ایک اندھی طاقت کو انگیخت لگی وہیں اس کے موہوم تصورات بھی بھک سے اڑ گئے.... وہ پاکستانی یا مسلمان ہونے کے سبب مشتبہ ٹھہرا تھا اور یوں اپنے خوابوں کی جنت سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ اس موقع پر جب اس کی روشن خیال بیوی کا اصلی چہرہ اس کے سامنے آیا تو وہ اسے جارح قوم کی ذلیل کتیا نظر آئی اور اپنے لخت جگر راجر اور ڈیوڈ اپنے بدلے ہوئے طرز عمل کے باعث اُس ذلیل کتیا کے ذلیل پلے۔
زمین اور تہذیب سے اُکھڑی ہوئی نسل کایہ المیہ حمید شاہد نے محض بیانیہ واقعات کے تانے بانے سے نہیں بُنا‘ بلکہ فلیش بیک میں دور طالب علمی میں اس کے بنائے ہوئے ایک ادھورے سیلف پورٹریٹ کو گوگول کی ایک کہانی کی تصویر کے ساتھ اس فنی مہارت کے ساتھ جوڑا ہے کہ یہ کولاژ کاری اس کہانی کو فنی سطح پر کئی بلندیاں عطا کر گئی ہے ۔ پہلے وہ تصویر جسے توصیف نے بنایا اور وہ ادھوری رہ گئی تھی:
”یہ اس کی اپنی تصویر تھی ‘ جو ادھوری رہ گئی تھی۔ کچے پن کی چغلی کھانے والی اس ادھوری تصویر میں کیا کشش ہو سکتی تھی کہ
اسے ابھی تک سنبھال کر رکھا گیا تھا.... اُس نے غور سے دیکھا .... شاید ‘ بلکہ یقیناً کوئی خوبی بھی ایسی نہ تھی کہ اس تصویر کو یوں سنبھال کر رکھا جاتا .... اسے یاد آیا جب وہ یہ تصویر بنا رہا تھا تو اس نے اپنے باپ سے کہا تھا ‘ کاش کبھی وہ دنیا کی حسین ترین تصویر بنا پائے۔ اُس کے باپ نے اس کی سمت محبت سے دیکھ کر کہا تھا ‘ تم بنا رہے ہو نا‘ اس لیے میرے نزدیک تو یہی دنیا کی خوبصورت ترین تصویر ہے ‘ ....وہ ہنس دیا تھا‘ تصویر دیکھ کر ‘اور وہ جملہ سن کر۔
یہ جو اپنے اپنائیت میں فیصلے کرتے ہیں‘ان کی منطق محبت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی....
تصویر نامکمل رہ گئی کہ اس کا دل اوب گیا تھا مگر اس کے باپ کو اپنا کہا یاد رہا‘ لہذا اس نے اس ادھوری تصویر کو اس دیوار پر سجا دیا تھا۔ “
اور اب تصویر کا قصہ جو اس تصویر کا پیوند ہو گئی تھی اور یہ بھی نامکمل رہنے والی تصویر تھی تاہم اس نے ایک مرحلے پر توصیف کو تھام لیا تھا:
” تھامنے والے ہاتھ گوگول کے تھے ....گوگول کے نہیں ‘ اس تصویر کے ‘جو گوگول کے ہاں پہلے مرحلے میں نامکمل رہ گئی تھی.... شیطانی آنکھوں والی ادھوری تصویر۔مگر یہ بھی وہ تصویر نہ تھی جس نے اسے تھاما تھا کہ اُس کا چہرہ تو معصومیت لےے ہوئے تھا .... فرشتوں جیسا ملائم اور اُجلا۔ یہ اسی تصویر کا دوسرا مرحلہ تھا جبکہ وہ مکمل ہو گئی تھی۔ تصور ایک جگہ ٹھہر گیا تو اسے گوگول کے افسانے کا وہ پادری یاد آیا جس نے سب کا دھیان شیطانی تاثرات والی آنکھوں کی جانب موڑدیا تھا۔ اُسے ابکائی آنے لگی“
دونوں تصویریں اپنی اپنی جگہ ایک تکون بناتی ہیں ۔ دونوں تکونوں کے ایک زاویے پر نامکمل تصویر ہے ‘جو دوسرے پر مکمل ہو جاتی ہے جب کہ تیسرا زاویہ ‘معصیت اور شیطنت بدل بدل کر دکھاتا ہے ۔ یہ ایک مشکل تیکنیک ہے لیکن حمید شاہد کے ہاں یہ پسندیدہ تیکنیک ہے کہ اس طرح وہ متن کے اندر معنویت کا نیا جہاں آباد کر دیتا ہے ۔ اس سے پہلے وہ یہی تیکنیک ”نئی الیکٹرا“ میں کامیابی سے نبھا چکا ہے ۔ ”گانٹھ“ میں اس نے گوگول کے افسانے کی تھیم اور چیدہ چیدہ مناظرکو کہانی کے موضوعاتی فریم میںاس فنی سلیقے کے ساتھ پینٹ کیا ہے کہ یہ واقعہ اپنی تمام تر عصری صداقتوں پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہوا خیرو شر کے دائمی دیارتک جا پہنچتا ہے۔ وہ ادبیات عالیہ سے کوئی شہکار منتخب کرتا ہے اور اسے اپنے فن پارے میں یوںجڑدیتا ہے کہ اس کی روشنی سے معانی کا تناظر ابدیت کے کناروں تک پھیل جاتا ہے۔ یہ اس کے وسیع مطالعے کی دلیل اور اس مطالعے کا اس کے تخلیقی وجود میں حلول کر جانے کا مظہر بھی ہے۔ علاوہ ازیں یہ اس بات کی تصدیق بھی ہے کہ ہر بڑی تخلیق کا ماقبل کی بڑی تخلیقات کے ساتھ کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہوتا ہے۔
پاﺅں کے نیچے زمین نہ ہو تو ساری آفاقی گرہیں تارِ عنکبوت سے بھی کمزور ثابت ہوتی ہیں ۔ ایسے میں فن پارہ خلا ہی میں معلق رہ جاتا ہے اور چپکے سے وقت بھی فنکار کے پاﺅں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیتا ہے۔ اور قاری بے چارہ لاشےں ڈھوتے ڈھوتے اتنا تھک جاتا ہے کہ زندہ لفظوں سے بھی ڈر لگنے لگتا ہے۔
رسول حمزہ توف نے ”میرا داغستان“ میں ایک اپاہج شہزادے کی کہانی بیان کی ہے ۔ وہ پیدائشی معذور تو نہیں تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کے اعضا ڈھیلے پڑنا شروع ہو گئے اور آخر آخر وہ ایک لوتھ کی طرح بستر پر پڑا رہ گیا۔ شاہی اطبا ءعلاج کیا کرتے....؟ مرض کی تشخیص ہی نہ ہو پائی ۔ کئی شادیوں کے بعد جس ملکہ نے تخت کا وارث پیدا کیا تھا وہ تو بستر سے لگ ہی گئی ۔ بادشاہ بھی تاج وتخت سے بے نیاز ہوا چاہتا تھا کہ ایک سیلانی حکیم وارد ہوا۔ اس نے ملکہ سے تخلیہ میں شہزادے کی اصلیت کا راز معلوم کر لیا۔ یہ اس کے علاج میں معاون ہو سکتا تھا۔ حکیم نے محل کے ایک گوشے میں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور گلہ بانوں کی چھولداریاں لگوادیں۔ جب وہ گلہ بانوں کی بودوباش اور بھیڑ بکریوں کی بوباس سے مطمئن ہو گیا تو اس نے شہزادے کا بستر وہاں لگوا دیا ۔ اس ماحول میں آتے ہی لوتھ میں زندگی کی لہر نے پلٹا کھایا اور وہ رفتہ رفتہ صحت یاب ہو گیا ۔ رسول حمزہ توف نے اس تمثیل سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو ادیب اپنی زمین کے ساتھ رشتہ استوار رکھتا ہے اس کا لفظ کبھی اپاہج نہیں ہوتا۔
حمید شاہد اس اعتبار سے خوش بخت ادیب ہے کہ اس کی تحریروں کے نیچے بچھی ہوئی مٹی میں اس کے پُرکھوں کے پسینے کا وتر موجودہے ۔ اس کا تعلق ادیبوں کی اس نسل سے ہے جو پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئی اور پاکستان ٹوٹنے کا المیہ کھلی آنکھوں سے دیکھتی رہ گئی۔ حمید شاہد نے ایک بار ذکر کیا تھا کہ اس کے تخلیقی وجود کی بیداری میں سقوط ڈھاکہ کا گہرا عمل دخل ہے۔ اگرچہ اس کا راست اظہار تو اس کے ہاں نہیں ہے تاہم اپنی مٹی سے لگاﺅ اور وطن ٹوٹنے کا گھاﺅ اس کی بہت سی کہانیوں میں نئی معنویت پیدا کر گیا ہے ۔
ادیب تاریخ کا پہیہ روک تو نہیں سکتا لیکن اس کے نیچے کچلی جانے والی اقدار اور انسانی شناختوں کے ٹکڑے اپنے میوزم میں سجا کر محفوظ تو کر سکتا ہے ۔ ”معزول نسل “ میں بدلتی ہوئی معاشرت کے ارتقا ءکے آخری سرے پر سوائے ذات کی تنہائی کے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔” رکی ہوئی زندگی“ میں ظاہری چمک دمک کے پیچھے ازدواجی زندگی کے حقیقی رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور مرد باسی روٹی کی طرح بے ذائقہ ہو جاتا ہے ۔ اور یہ بھی ایک طرح کی موت ہی ہے ۔ ”دُکھ کیسے مرتا ہے“ اور ”مرگ زار “ بھی اس مجموعہ کی اہم کہانیاں ہیں ‘ بلکہ زندگی اور موت کی انتہاﺅں پر پھیلی ہوئی ایک ہی کہانی کی دوقوسیں ہیں۔ اوّل الذکر میں کہانی کار نے زندگی کے عظیم ترین جذبے ’محبت‘ کو نہایت معمولی سطح پر مرتے ہوئے دیکھا تو آخر الذکر میں شہادت کی ابدی زندگی کے عظیم تصور کو دھوکے کی خوفناک موت مرتے دیکھ لیا ہے ۔ ”موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ ” ادارہ اور آدمی “ اور ”موت کا بوسہ“ جیسی کہانیوں میں موت مختلف عصری‘ سماجی‘ سیاسی اور معاشی سطحوں پر روپ بدل بدل کر وار کرتی ہے اور آدمی اس کے مقابل بے بسی اوڑھ کر بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔
ہماری اجتماعی نفسیاتی حالت منشایاد کی معروف کہانی ”راتب“ کے مرکزی کردار جیسی ہو چکی ہے ۔ ہم عالمی چوہدری کے ”راتب“ کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنے تہذیبی شجرے سے شک کی بو آنے لگی ہے ۔ ایسے میں حمید شاہد نہ تو مایوسی کی فصل کا ٹتا ہے اور نہ امیدکی نرسری اگاتا ہے ۔ بعض لوگ حقیقت کو ننگا دیکھ کر شرما جاتے ہیں یا گھبرا جاتے ہیں ۔ اس کتاب میں یہ دونوں رویے نظر نہیں آتے ۔ البتہ ایک گاڑھی اور پگھلی ہوئی اذیت ہے جو ان کہانیوں میں بہہ رہی ہے ۔ یہ اذیت پڑھنے والوں کو اندر سے بدل کر رکھ دیتی ہے ۔
اندر ہی اندربہتی ہوئی گہری اذیت سے ہم اس وقت تو بہت شدت سے دوچار ہوتے ہیں جب حمید شاہد کی کہانی ” سورگ میں
سو¿ر“ کو پڑھتے ہیں۔ ”سورگ میں سو¿ر“ اپنے ہی وطن میں زمینی وسائل اور تہذیبی اقدار سے اجتماعی بے دخلی کی کہانی ہے ۔ گیارہ ستمبر کے پس منظر میں سو¿روں کی آمد ‘ کتوں کی بہتات ‘ بکریوں کی اموات اور مونگ پھلی کی کا شت جیسی علامتوں سے حمید شاہد نے عالمی بساط پر کھیلے جانے والے اس مکروہ کھیل سے پردہ اٹھایا ہے جس میں موت اور مات ہمارے تہذیبی تشخص کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اس افسانے نے اپنی اشاعت سے قبل ہی ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی اور اسلام آباد کے الگ الگ تنقیدی جلسوں میں اس افسانے کے مختلف پہلوو¿ں پر گھنٹوں بحث چلی ‘ اور حمید شاہد نے ڈھیروں داد سمیٹی ۔ میں بھی ان بحثوں میں پیش پیش رہا لیکن اب اس کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں تو اس کے الگ مطالعہ کا قرض باقی رکھتے ہوئے قلم رکھ رہا ہوں ‘ کیوں ؟ شاید اس لیے کہ جہاں کہانی ختم ہوتی ہے وہاں سے اذیت کی دلدل شروع ہو گئی ہے ۔بلاشبہ اس کہانی کو اردو ادب کی بڑی کہانیوں میں اعتماد کی ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔
سقراط نے عدالت میں کہا تھا ‘میری فکر کی مثال کتا مکھی جیسی ہے جو ایتھنز (Athens)کو چین نہیں لینے دیتی۔ خیال رہے کہ کتا مکھی زندہ کتے پر بیٹھتی ہے اور اسے زندگی پر اکساتی اور بے چین رکھتی ہے ۔ مرے ہوئے کتے پر صرف گندگی کی مکھیاں ہی ہجوم کرتی ہیں ۔ شاید ابھی ہم تک پوری طرح نہیں مرے اور ممکن ہے کہ یہ کتاب ہمیںبے چین کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
٭٭٭

ناصر عباس نیّر


ناصر عباس نیّر
”مرگ زار “پر چند باتیں

ہر ادبی تحریر کے دو مصنّف ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کا نام تحریر کے ساتھ کندہ ہوتا ہے۔ وہ دراصل تحریر سے پہلے اور باہر ‘ طبعی وجود رکھتا ہے جب کہ دوسرا تحریر کے اندر سرایت کئے ہوتا ہے اورvirtually وجود رکھتا ہے ۔ پہلا اپنے ہونے کا اعلان خود کرتا ہے ‘ مگر دوسرے کو قاری ‘تحریر کے دوران میں conceiveکرتا ہے ۔ ایک کو ہم اصل مصنّف(Actual Author) اور دوسرے کو مرادی مصنّف (Implied Author) کہہ سکتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دوسرا پہلے کا ہو بہو عکس ہو ۔ وگرنہ بالعموم تحریر سے باہر اور تحریر کے اندر موجود ومضمر مصنّف میں فرق ہوتا ہے ۔ یہ فرق نقطہ ءنظر کا بھی ہوتا ہے اور شخصیت کا بھی ! اکثر اصل مصنّف کے سیاسی‘مذہبی اور اخلاقی تصورات اس کی تحریروں میں تحلیل ہو جاتے ہیں ۔ مرادی مصنّف اصل مصنّف کی سماجی شخصیت سے بغاوت کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ایک کا آدرش دوسرے کی کمزوری بن جاتا ہے ۔ اس کا ایک سبب تو سماج ‘ ریاست یا پارٹی کا نظریاتی دباﺅ ہوتا ہے اور دوسرا سبب زبان اور ادب کا مخصوص تفاعل ہے ۔ ساختیات اور نشانیات میں جس مصنّف کی نفی کا اعلان کیا گیا ہے وہ درحقیقت” اصل مصنّف“ ہی ہے۔ ساختیات نے چوں کہ اصل مصنّف کی نشست خالی کرکے وہاں قاری کو بیٹھا دیا ہے ‘ اس لیے وہ ”مرادی مصنّف“ کا ادراک کرنے سے قاصر رہی ہے ۔ یہ درست ہے کہ متن فہمی میں قاری فعال کردار ادا کرتا ہے اور قاری کے عمل قرا¿ت سے ہی متن عملاًوجود رکھتا ہے مگر ہر ادب کی معنیاتی حدود ہوتی ہیں ‘ جنہیں قاری گرفت میں لیتا ہے ۔ ان کی تعبیر بھی کر سکتا ہے مگر ان کی تخلیق نہیں کرتا ۔ ان حدود کو صنف‘ زبان ‘شعریات اور مرادی مصنّف مل کر تخلیق کرتے ہیں۔ بہر کیف ادبی مطالعات میں مصنّف کی اگر کوئی اہمیت ہے اور تجزیہ و تعبیر میں اس کا حوالہ اگر مفید ثابت ہو سکتا ہے تو وہ مرادی مصنّف ہی ہے۔ میں نے ”مرگ زار“ کے مطالعے میں اصل مصنّف سے زیادہ اس کتاب کے افسانوں میں مضمر اور رواں دواں محمد حمید شاہد سے سروکار رکھا ہے ۔
مصنّف کو اہمیت دینے کا مطلب دراصل مصنّف کے زاویہ ءنظر یا اس کی آئیڈیالوجی کو اہمیت دینا ہے اور مرادی مصنّف تو نام ہی ہے ایک مخصوص زاویہ¿ نظر یا آئیڈیالوجی کا! ۔ آئیڈیالوجی کا کلاسیکی (مارکسی)تصور تو سماج کے کسی طبقے کا وہ نظام فکر ہے ‘جسے وہ اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ اور حصول کے لیے وضع کرتا ہے ۔ مگر اب یہ اصطلاح وسیع معنوں میں برتی جانے لگی ہے اوراس سے مراد وہ مخصوص طریق فکر لیا جانے لگا ہے ‘جس کی مدد سے دنیا کو دنیا کو سمجھا جاتا ہے ۔ اور دنیا کو سمجھنے کے لیے جب آپ کوئی مخصوص زاویہ¿ فکروضع یا اختیار کرتے ہیں تو گویا اس زاویے کی موزونیت (validity) اور دیگر زاویہ ہائے فکر کی عدم موزونیت کا اعلان کرتے ہیں ‘ یعنی ایک کا اثبات کرکے دیگر کو بے دخل اور غیر موثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
”مرگ زار“ کے مرادی مصنّف کی بھی ایک آئیڈیالوجی ہے ‘ جس کی مدد سے اس نے دنیا کو سمجھا اور سمجھایا ہے ۔ اسے ”خود شعوریت“ (Self-reflexivity)کا نام دے سکتے ہیں۔ خود شعوریت”مرگ زار“ میں کئی صورتوں میں اور کئی سطحوں پر کار فرما ہے ۔ پہلی صورت میں یہ مصنف کو اپنے تخلیق کار ہونے کا احساس پیہم دیتی ہے ۔ اپنے تخلیق کار ہونے کا احساس سادہ اور عام سی بات نہیں ہے ۔ یہ احساس نوعیت کے اعتبار سے ”آئیڈیالوجیکل “ ہے ۔ یعنی اس احساس کو حاوی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مصنف کا دنیا کے ساتھ رشتہ تخلیقی ہے ۔ وہ دنیا کی تفہیم اور آگے اس کی ترسیل تخلیقی پیرائے میں کرتا اور دیگر پیرایوں کو بے دخل اور غیر مو¿ثر کرتا ہے ۔ دیگر پیرایوں میں سا ئنس‘ صحافت‘ فلسفہ‘ تاریخ وغیرہ بھی شامل ہیں اور وہ نظریے بھی جو اپنی اصل میں سیاسی یا اخلاقی ہیں‘ مگر جنہوں نے چولا جمالیات کا پہنا ہوا ہے ۔ تخلیقی پیرایہ اپنی اصل میںDisinterestedہوتاہے۔ یہ دنیا اور زندگی پر آزادانہ ‘ غیر جانبدارانہ اور غیر مشروط نظر ڈالتا ہے۔ واضح رہے کہ آزادانہ نظر کا مطلب کلی آزادی یا Chaos نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا مو¿قف ہے جو پہلے سے طے شدہ حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ مخصوص اور واحد نظریے کے اجارے کو مانتا ہے ۔ یہ زندگی سے غیر متعصبانہ اور کھلا ڈلا معاملہ کرتا ہے۔ ”مرگ زار“ کے محمد حمید شاہد نے بھی معاصر دنیا اور زندگی پر غیر مشروط اور غیر جانبدارانہ نظر ڈالی ہے ۔
تخلیق ادراک سے اظہار تک جو سفر طے کرتی ہے ‘ اسے سمجھنا آسان نہیں۔ مگر ”مرگ زار“ کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے مصنف کواس سفر میں برابر اپنے تخلیقی منصب کا شعور رہتا ہے اور وہ اظہار کے منفرد تخلیقی قرینے وضع کرتا چلا جاتاہے۔ محمد حمید شاہد کے افسانے کی ہر سطر سے تخلیقی شان اور تخلیقی خود شعوریت کا اظہار ہوتا ہے ۔ وہ ماجرا کہیں یا کسی کردار کے اوضاع و اطوار کو پیش کریں‘ کسی کیفیت کا بیان ہو یا کوئی نفسیاتی تجزیہ‘ جمالیاتی طور کا بطور خاص اہتمام ہوتا ہے ۔ بعض اوقات کسی سادہ قصے کے بیان میں سجی سنوری عبارت کی گنجائش نہ بھی ہو تو وہ گنجائش نکال لیتے ہیں ۔ افسانے کا اسلوب ‘ بیان کنندہ(narrator) کی شخصیت ‘ ذہنی سطح اور کہانی میں اس کے کردار کے تابع نکال لیتے ہیں۔ محمد حمید شاہد اس بات کا ادراک رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ افسانہ ایسے بیان کنندہ کی زبانی کہلواتے ہیں جو قصے کی جزیات کو نفسیاتی بصیرت کے ساتھ پیش کرنے کی ذہنی اہلیت رکھتا ہے ۔
”مرگ زار“ میں خود شعوریت کی کار فرمائی کی دوسری صورت یہ ہے کہ اس میں شامل بعض افسانوں میں‘ افسانویت اور افسانہ سازی کے عمل کا شعور موجود ہے ۔ ان افسانوں کے راویوں کو پیہم یہ احساس اور دھیان رہتا ہے کہ وہ کہانی کہہ رہے ہیں‘ جیسے ”تکلے کا گھاﺅ“ اور ”مرگ زار“ میں راوی‘قاری کو یہ تاثر دینے کی مسلسل سعی کرتا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کی کہانی کہہ رہا ہے ۔ ان افسانوں میں راوی نے ایک مصنف کا بہروپ بھرا ہوا ہے۔ اس طرز کی کہانیاں ہمیں بعض سوالات قائم کرنے اور دنیا اور ادب کے رشتے کو سمجھنے کی کچھ نئی راہیں سجھاتی ہیں (اور یہ معمولی بات نہیں۔)
ایک سوال یہ کہ جس دنیا کو کہانی میں لکھا جا رہا ہے ‘ کیا وہ دنیا خود بھی ایک کہانی ہے ؟ یہ سوال اُٹھانا اس لیے روا ہے کہ مذکورہ افسانوں میں دو کہانیاں ایک ساتھ چلتی ہیں ۔ ایک کہانی راوی کی ہے اور دوسری ‘جو وہ کہہ رہا ہے ۔ ہر چند راوی یہ تاثر دینے کی سعی پیہم کرتا ہے کہ وہ کہانی سے الگ ہے ‘ مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتا ۔ اور اس کی یہ کو شش کہانی کے عمل کا حصہ بن جاتی ہے ۔ چناں چہ یہ پو چھا جا سکتا ہے کہ اگر راوی (جو دنیا کا نمائندہ ہے) کی کہانی اس کی کہی جانے والی کہانی سے الگ نہیں ہے تو پھر ان دونوں میں رشتہ کیا ہے ؟ کیا کہی جانے والی کہانی‘ کہنے والے کی کہانی کا عکس محض ہے؟ یہ بات ترقی پسندوں اور نفسیاتی نقادوں کے مفروضات پر یقین رکھنے والوں کو تو قابل قبول ہوئی‘ مگر ”مرگ زار“ کے مصنف کو نہیں ۔ اس بات کی صداقت تسلیم کر لینے کا مطلب افسانے کے تخلیقی امکانات کو محدود کرنا ہے اور افسانے کو خارجی اور معلوم دنیا کا سیدھا سادا اور” سچا“ بیانیہ بنا ڈالنا ہے ۔”مرگ زار“ کا مصنف اپنی افسانوں میں دنیا کو لکھتا ہے ‘مگر جب یہ دنیا لکھی جاتی ہے تو کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے ۔ افسانوی تخلیقی عمل دنیا کو بدل دیتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں” مرگ زار“ کا افسانہ ہمیں جس دنیا سے آشنا کرتا ہے ‘ وہ اس کی اپنی ڈھالی ہوئی اور تشکیل دی گئی دنیا ہے ۔ اس کتاب کے افسانوں کو پڑھنے سے دنیا سے متعلق فقط ہمارے سابق یا بھولے بسرے علم کا احیا نہیں ہوتا‘ بلکہ ہمیں باہر کی دنیا کا نیا ادراک حاصل ہوتا ہے ۔ یعنی ہم محض بازیافت نہیں کرتے ‘نئی یافت سے سرفراز ہوتے ہیں ۔ ہم معاصر دنیا کے اطراف کی آگہی پاتے ہیں جن سے پہلے بے خبر تھے یا جنہیں مسخ کر دیا گیا تھا۔ مثلاً ” دُکھ کیسے مرتا ہے“میں ہم گہرے ذاتی دُکھ سے نجات کی ایک نئی نفسیاتی حکمت عملی کی آگہی پاتے ہیں اور افسانہ ” مرگ زار“ میں ایمان اور زمین سے متعلق اس تصور کا سراغ پاتے ہیں جسے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے نام پر جاری مہم نے مسخ کر رکھا ہے۔
ان افسانوں میں راوی پر مصنف کا گمان ہوتا ہے تو ہر چند یہ سوال اٹھتا ہے کہ اصل مصنف کہانی میں کتنا شامل اور کتنا فاصلے پر ہوتا ہے ؟ مگر حقیقتاً یہ افسانوی تیکنیک ہے ‘ جس میں مصنف بہ طور کردار شامل ہے اور اس لیے شامل ہے کہ وہ افسانوی عمل کے امتیاز اور استناد (authenticity) کو باور کراسکے اور اس امر کی ضرورت ایک مخصوص ثقافتی فضا میں درپیش ہوتی ہے اور ہم اسی ثقافتی فضا میں جی رہے ہیں۔
ہمارے زمانے میں بیانیوں اور ڈسکورسوں کی کثرت ہے اور ہر ڈسکورس دنیا کو اپنی جدا گانہ زبان ‘ اپنے الگ اسلوب اور اپنی مخصوص آئیڈیالوجی کی رو سے پیش کرتا ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہر ڈسکورس اپنی آئیڈیالوجی اور اپنی حکمت عملیوں کو چھپانے کی کو شش کرتا ہے ۔ جس طرح صارفیت میں تاجرانہ مقاصد اور مفادات کو مخفی رکھنے کی کو شش ہوتی ہے ۔ مذہبی ‘ سائنسی‘ فلسفیانہ ‘ معاشی‘ سیاسی بیانیوں میں بھی اصل مقاصد اور ان کے حصول کی حکمت عملیوں کو چھپایا جاتا ہے ۔ اور یہ سب اس لیے ہو تا ہے کہ دنیا کے اس تصور کو مسلط کیا جا سکے ‘جسے کسی بیانیے اور ڈسکورس نے تشکیل دے رکھا ہے۔ ہر ڈسکورس دراصل طاقت کے حصول کا خواہاں ہوتا ہے ۔ یہ صورت حال ادب اور آرٹ کے لیے خاصی پریشان کن ہوتی ہے کہ وہ اپنی جمالیاتی ماہیت کی رو سے رمز و علامت سے کام لیتا ہے اور جس میں بہت کچھ چھپایا جاتا ہے اور بہت کچھ ’ان کہا‘ چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ایسے میں ادب کو دوسرے بیانیوں اور ڈسکورسوں سے خلط ملط کیا جا سکتا ہے۔ اس پریشانی کا ایک حل خود شعوریت ہے ‘ یعنی ایسی تیکنیک سے کام لیا جائے ‘ جو قاری کو باور کرائے رکھے کہ وہ کسی اور ڈسکورس سے نہیں ‘ادب سے دو چار ہے ‘ جو قاری پر مخصوص تصور حیات مسلط کرنے کی درپردہ کوئی حکمت عملی نہیں رکھتا ۔ دوسرے ڈسکورس اپنی طاقت پسند حکمت عملیوں سے آدمی کو جکڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو ادب آدمی کو زنجیروں سے آزادی دلاتا ہے ۔ ڈسکورس میں بنیاد پرستانہ مطلقیت پسندی ہوتی ہے تو ادب میں امکانات ہوتے ہیں۔ لہذا خود شعوریت کے ذریعے محمد حمید شاہد نے ادب اور افسانوی عمل کے امتیاز اور استناد کو باور کرانے کی سعی مشکور کی ہے ۔ اور یوں گہرے ثقافتی شعور کا مظاہرہ کیا اور اس کے مقابل مخصوص تخلیقی سٹرٹیجی کو وضع کیا ہے ۔
خود شعوریت سے جہاں محمد حمید شاہد کے افسانوں میں متن در متن یاFrame Narrativeکی صورت پیدا ہوئی ہے ‘ وہاں یہ افسانے نئی قسم کی حقیقت نگاری کے مظہر بھی بن گئے ہیں ۔”برشور“ ”لوتھ“”تکلے کا گھاﺅ“” موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ اور ”مرگ زار“ محمد حمید شاہد کی نو حقیقت پسندی کی عمدہ مثالیں ہیں ۔ واضح رہے کہ ان کی حقیقت نگاری نہ تو سماجی حقیقت نگاری ہے‘ نہ مارکسی حقیقت نگاری اور نہ نفسیاتی یا باطنی حقیقت نگاری۔ ان کی حقیقت نگاری دراصل معاصر زندگی پر غیر مشروط مگر کلی نظر ڈالنے سے عبارت ہے ۔اور یہ اس توازن کو بحال کرتی ہے ‘جسے جدیدیت پسندوںاور ترقی پسندوں کی انتہا پسندانہ روشوں نے پامال کیا تھا۔ جدیدیے داخلی زندگی کو اور ترقی پسند خارجی زندگی کو ہی حقیقت سمجھنے لگے تھے۔ محمد حمید شاہد جس نسل سے تعلق رکھتے ہیں‘ اس نے دونوں کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور زندگی کے دونون رُخوں کو یکساں اہمیت دی ہے۔ اور اہمیت دینے کے ضمن میں ایک طرف دونوں سے استفادہ کیا ہے تو دوسری طرف دونوں تحریکوںسے ہٹ کر موقف بھی اختیار کیا ہے۔ محمد حمید شاہد کے یہاں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں ۔ مثلاً افسانہ” معزول“ کا مرکزی مسئلہ فرد کی شناخت ہے‘ جسے جدیدیت نے اپنا مرکزی سروکار بنایا تھا۔ ”تکلے کا گھاﺅ“ میں بھی داخلیت ‘ تنہائی اور اجنبیت کے اسی گہرے نجی کرب کو موضوع بنایا گیا ہے ‘جسے جدیدیت نے وجودیت سے اخذ کیا تھا۔ محمد حمید شاہد کی افسانوی نثر میں جو شعریت موجود ہے ‘ وہ بھی جدیدیت سے استفادے کی گواہ ہے‘ مگر انہوں نے جدیدیت کے سروکاروں کو پیش کرتے ہوئے کہانی پن کو قائم و بر قرار رکھا ہے اور یہ جدیدیت سے انحراف کی صورت ہے ۔ اسی طرح انہوں نے ترقی پسندوں کے زاویہ¿ نظر کو بھی جزوی طور پر برتا ہے ‘جیسے ”برشور“ میں۔ اس افسانے کا زرگل استحصال پسند طبقے کی علامت ہے‘ جو معاشی ہتھکنڈوں سے تاج محمد ترین کی بیٹی اور جائیداد کو ہتھیا لیتا ہے مگر اسے فارمولا بناکر اپنی کہانیوں میں نہیں برتا۔
محمد حمید شاہد اور اس کے ہم عصرافسانہ نگاروں کو جو بات ان کے پیش رووں سے الگ کرتی ہے وہ دراصل زندگی اور دنیا کو غیر مشروط مگر کلی طور پر افسانے میں برتنے کا رویہ ہے ۔ یہ سوال نما اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ غیر مشروط ہونے کا مطلب کیا کسی نقطہ¿ نظریا مو¿قف سے محروم ہونا نہیں ہے؟ جدیدیے یا ترقی پسند جیسے بھی تھے کوئی نہ کوئی مو¿قف تو رکھتے تھے ‘جس کی مدد سے وہ زندگی کی جیسی بھی سہی‘ تفہیم تو کرتے تھے۔ کیا غیر مشروط زاویہ¿ نظر معاصر زندگی کی تفہیم کر سکتا ہے ؟ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ غیر مشروطیت اپنی جگہ پر خود ایک مو¿قف ہے‘ جو زندگی کی تفہیم کے لیے کسی خاص اور واحد نظریے کے استناد کو قبول نہیں کرتا ۔ اور اولیت ادب کی جمالیاتی اقدار کو دیتا ہے۔ چناں چہ آپ دیکھیں کہ محمد حمید شاہد اور اس کے معاصرین زندگی کو فنی طور پر برتنے کے جس شعور کا مظاہرہ کرتے ہیںوہ ان کے پیش رووں کو کم کم نصیب تھا۔ غیر مشروطیت کے موقف کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہ معاصر زندگی سے حسی نوعیت کا ربط قائم کرتا ہے ۔ واحد نظریے کے علم بردار زندگی سے عینی ربط رکھتے ہیں۔ وہ زندگی کی ایک سطح کی آگہی حاصل کرتے ہیں تو دیگر کئی سطحوں سے بے خبری اور لاتعلقی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر حسّی ربط زندگی کی داخلیت اور خارجیت ‘ زندگی کے سارے حسن اور قبح ‘ حرارت اور نم ناکی‘ فردیت اور اجتماعیت‘ سب کا ادراک کرتا ہے‘ مگر ادراک کو معنیاتی سطح پر لا تعین رکھتا ہے۔ عینی ربط میں معنی کی سطح بھی مقرر اور متعین ہوتی ہے‘ زندگی خارجی اور مادی مسائل سے عبارت ہوتی ہے یا داخلی ‘ نفسیاتی اور باطنی معاملات و کیفیات کا نام ہوتی ہے۔ مگر حسی ربط زندگی کو اس طور ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کرتا ۔ وہ ہر خارجیت کی ایک داخلیت اور ہر داخلیت کی ایک خارجیت کا ادراک کرتا یا تصور باندھتا ہے۔ اس طور معنیاتی امکانات کی راہ کھلی رکھتا ہے۔ اس امر کی سب سی عمدہ مثال محمد حمید شاہد کا افسانہ ”سورگ میں سو¿ر“ ہے ‘ جو اپنی تیکنیک‘ فنی ہنر مندی اور موضوع وتھیم ‘ ہر حوالے سے اس مجموعے کا بہترین اور اُردو ادب کا اہم افسانہ ہے ۔ یہ افسانہ زندگی کا حسی ادراک کرنے اور ادراک کو کسی واحد مفہوم کی قطعیت سے آزاد رکھنے کی قابل رشک مثال ہے۔ اسے تمثیلی پیرائے میں لکھا گیا ہے ۔ اور ہر تمثیل دوہری سطح کی حامل ہوتی ہے۔ پہلی سطح پر یہ ایک حسی اظہار ہوتی ہے مگر دوسری سطح پر اس میں معنیاتی تجرید ہوتی ہے ‘ مگر حسیت اور تجریدیت میں گوشت اور ناخن کا رشتہ ہوتا ہے (یا ہونا چاہیئے ) ۔ ”سورگ میں سو¿ر“ میں بھی یہی صورت ہے۔
بالائی سطح پر یہ بارانی زمین پر آباد سورگ ایسے گاﺅں اور اس کے محنت کش باسیوں کے جہد حیات کی کہانی ہے ‘ مگر زیریں سطحوں میں یہ ایک طرف وطن عزیز کی سیاسی اور پھر ثقافتی تاریخ کا بیانیہ ہے تو دوسری طرف نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورت حال کا قصہ ہے ۔ کہانی میں تھوتھنیوں والے اور کتے جن علامتی کرداروں میں آئے ہیں ‘ اُنہیں معاصر قومی اور عالمی منظرنامے میں پہچاننے میں قاری کو دیر نہیں لگتی۔ مگر واضح رہے کہ یہ افسانہ اپنے اندر محض ہنگامی واقعیت نہیں رکھتا‘ فقط ایک بڑی فوجی طاقت کی بے رحمانہ سرگرمیوں کو تمثیلی انداز میں پیش نہیں کرتا ‘ بلکہ ایک ایسی علامتی جہت بھی رکھتا ہے ‘ جسے مجموعی انسانی تاریخ کے کئی ادوار میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ اگر اس افسانے کو انسانی تاریخ کی نئی اسطورہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اور یہ ”اسطورہ“ اس جدید اساطیری افسانے سے مختلف اور ممتاز ہے کہ اسے محمد حمید شاہد نے تخلیق کیا ہے ۔ جب کہ جدید اساطیری افسانے میں قدیم اساطیر کو برتا گیا تھا۔ اور اسی بنا پر محمد حمید شاہد (اور اس کی نسل) کا افسانہ پیش رو جدید افسانے سے آگے بھی ہے کہ یہ معاصر صورت حال کے غیر مشروط مگر حسی اور کلی ادراک سے اسطورہ سازی کر سکتا ہے ! افسانے کی بنیادی ساخت (کہانی) کو قائم اور جمالیاتی وسائل کا لحاظ رکھتے ہوئے زندگی کے ہنگامی اور تاریخی وجود کا علامتی فہم دیتا ہے !! ۔ علامتی فہم جس میں معنی کی قطعیت نہیں‘ معنی کی امکانیت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے!!! ۔

٭٭٭




ڈاکٹر نجیبہ عارف


ڈاکٹر نجیبہ عارف
”مرگ زار “کے افسانے

زندگی موت کی امانت ہے۔ اس لیے زندگی سے محبت کرنے والے لوگ ، موت کے زیر بار احسان رہتے ہیں۔ یہ ایسی کشش ہے جس کے دائروں سے نکل بھاگنا ان لوگوں کے لیے سہل نہیں، جو زندگی کو ہر پہلو سے چھو کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ موت ایک اسرار ہے اور اسرار اپنی طرف بلاتے ہیں، آواز دیتے ہیں۔ حمید شاہد کی کتاب، ”مرگ زار“ اسی آواز پر لبیک کہتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اس کتاب میں کل پندرہ کہانیاں ہیں۔ اور تقریباً ہر کہانی میں موت کی آہٹ ہے۔ جذبوں کی موت، قدروں کی موت، چھوٹی بڑی انسانی مسرتوں کی موت،وعدوں کی موت، ارادوں کی موت، خوابوں کی موت اور سب سے بڑھ کر جیتے جاگتے، زندہ لہو سے گرمائے ہوئے بدنوں کی موت جس کی اذیت محض اس خیال سے کم نہیں ہو سکتی کہ جسم کی موت سے انسان نہیں مر سکتا۔ موت انسانی ذہن و خیال اور جسم کی حرکت کے خاتمے کا نام ہے۔کیونکہ عام عقائد کے مطابق، جسمانی موت کے بعد اس کا خیال اگر متحرک ہو گا تو اس حرکت کی نوعیت انفعالی ہو گی، فاعلی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ موت کا تصور ایک احساس محرومی سے آشنا کر دیتا ہے۔ زندگی دامان ِ خیال ِ یار کی طرح ہاتھ سے چھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ریت کے ذروں کی طرح مٹھیوں سے چھن چھن کر گرتی ہوئی۔ ہاتھ میں صرف ایک احساس ِ زیاں کی تلچھٹ باقی رہ جاتی ہے۔
”مرگ زار“کی بیشتر کہانیاں اسی تلچھٹ کو کریدتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کہانیوں کے ہاتھوں میں کہیںسوالوں کی تیسیاں، کہیں تحیّر کی سوئیاں، کہیں بے بسی کی چھینیاں اور کہیں احتجاج وبغاوت کی کسیّاںہیں۔ یہ اقرار و انکار کے مخمصے میں پھنسے ہوئے انسان کی بے چارگیوں کا آئینہ ہیں۔ ایسا انسان جسے سادہ اور معصوم زندگی کے لطف و اہتزازکی تلاش بھی رہتی ہے اور اس شعور و آگاہی کا لپکا بھی ہے جو اس معصومیت کی قیمت پر ملتی ہے۔ اکیسویں صدی میں ایک چھوٹی مچھلی کے ٹرانس پی¿رنٹ پیٹ میں رہنے والا انسان، جو بڑی مچھلیوں کی نقل و حرکت بھی دیکھ سکتا ہے اور ان کے ارادے اور نیت بھی سمجھ سکتاہے۔ اسے اپنے میدان ِ عمل کی تنگ دامانی کا احساس بھی ہے اور صور تحال کی نزاکت کا ادراک بھی۔ بھینس بننے سے انکار بھی ہے اور لاٹھی کی طاقت کا اندازہ بھی۔ وہ کبوتر کا تنِ نازک سہی مگر اسے آنکھیں بند کرنا پسند نہیں۔ اکیسویں صدی کی چھوٹی قوموں کے افراد جو اپنے گردو پیش کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور اپنی اپنی تہذیب و ثقافت ، لسانی و علاقائی شناخت اور مخصوص روایات و اقدار کو ایک بے ہنگم اور بے شکل و صورت ملغوبے کے بلیک ہول میں گرتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں، جس اندوہناک کربِ بے بسی سے دوچار ہیں، اس کی ایک واضح اور نمایاں جھلک اس کتاب میں دکھائی دیتی ہے۔
پندرہ میں سے چار کہانیوں کے تو عنوان ہی سے موت جھلکتی، بلکہ ٹپکتی ہے۔ ”مرگ زار“،” موت کا بوسہ“،” موت منڈی میں اکیلی موت کاقصہ“اور” دکھ کیسے مرتاہے“ ایسی کہانیاں ہیں جو اپنے تیز ناخنوں سے اپنا ہی کلیجہ چھیل چھیل کر ہی لکھی جا سکتی ہیں۔
”مرگ زار“ تیزی سے رنگ بدلتی دنیا کے اس اضطراب کی نقش گری ہے جس میں
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
وقت کے جبر میں الفاظ کیسے اپنا اعتبار ہی نہیں ، مفہوم بھی کھو بےٹھتے ہیں اور وقت کا جبر بھی کوئی صدیوں کی بات نہیں۔ چند سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے اقدار و روایات کا چہرہ کیا سے کیا ہو گیا ہے۔ واقعات جس عجلت سے رونما ہو رہے ہیں اس سے محسوس ہونے لگا ہے کہ کسی نہ کسی کا انجام قریب ہے۔ مگر کس کا انجام؟ شاید ایک عہد کا ، شاید ایک نظریے کا، شاید ایک دستورِ حیات کا، شاید ایک اندھی قوت کا۔ سب کے اپنے اپنے خواب ہیں اور اپنا اپنا خیال۔ مصنف کا خیال کیا ہے، کہانی سے یہ معلوم نہیں ہوتا مگر وہ بے قراری ضرور دکھائی دیتی ہے جو ہر انجام سے ذرا پہلے پھیل جایا کرتی ہے۔ وہ آثار ضرور نظر آتے ہیں جو بعد میں ایک واضح خیال اور پھر ایک خواب اور پھر ایک جوشِ جنوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ کہانی کے آخری جملے اس اندیشے کی تصدیق کرتے ہیں:
”ماں نے ماسی کے اٹھے ہوئے ہاتھ جھٹک کر گرا دیے اور اسے رونے سے منع کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہیدوں پر رویا نہیں کرتے۔ میں ماں کے حوصلے پر دنگ اور اس کی سادگی پر برہم تھا۔ ۔۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میں اندر سے کافر ہوتے ہوئے بھی اسے ٹوک نہ پاتا تھا۔ ۔۔ مگر یہ تو تب کی بات ہے جب ایمان اور زمین کی کوئی وقعت تھی۔ اب تو ماں روتی ہے اور رلاتی بھی ہے۔اتنا زیادہ اور اتنے تسلسل سے کہ میں بھی رونے لگتا ہوں اور بچھڑے ہوو¿ں کو یاد کرنے بیٹھ جاتا ہوں۔ میںبچھڑے ہووں کو اتنا یاد کرتا ہوں کہ اندر کا کافر دل پسیج کر ایمان اور زمین سے وابستہ ان جذبوں کو اپنے ہی اندر سے ڈھونڈ نکالتا ہے، جو وہاں کبھی تھے ہی نہیں۔“
کہانی کا یہ اختتامیہ دراصل اس کتاب کابھی اختتام ہے۔ یہ اختتام بالکل ویسا ہی ہے جیسے علامہ اقبال اپنی ہر نظم میں حضرت انسان یا مسلمانوں کو اچھا خاصا آئینہ دکھانے کے بعد اس کاانجام اس قدر رجائی انداز میں کرتے ہیں کہ پیشین گوئی کا سا لہجہ اپنا لیتے ہیں۔ محمد حمید شاہد ایک تخلیق کار ہے اور تخلیق کے لمحوں میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جو لکھنے والے کے ہاتھ سے ، قلم خود چھین لیتا ہے اور جو چاہتا ہے لکھ دیتا ہے۔ تخلیق کار خود ششدر رہ جاتا ہے کہ یہ مجھ سے کیا لکھا گیا۔ ہوسکتا ہے محمد حمید شاہد کی اس کہانی کے یہ اختتامی جملے بالکل شعوری ہوں اور التزاماً لکھے گئے ہوں لیکن اس عہد بے اماں میں ایمان اور زمین سے وابستہ جذبوں کا اعتراف ایسی جرات رندانہ ہے جسے صرف شک کا فائدہ دے کر ہی معاف کیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ خیال ضرور پریشان کرتا ہے کہ اگر مصنف نے اس خیال کو واقعی عام کر دیا تو انجام اور بھی قریب آجائے گا۔ امید ہے مصنف کے احباب انہیں اس فعل سے روکے رکھیں گے۔
”موت منڈی میں اکیلی موت کا قصّہ“ دکھ اور شدت احساس کی اس انتہا پر بیٹھ کر لکھی گئی کہانی ہے جہاں دکھ ، طنز کی تلخی میں ڈھل جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کے کورے کاغذ پر ایک اکیلی موت کا قصہ کیا سجے گا جب کہ ”تھوک میں مرتے انسانوں کے خون کی باڑھ “ ابھی منتظر ہے کہ اس کی سرخی جمے۔ مرگ انبوہ کے جشن میں ایک اکیلی موت کا نوحہ کیا معنی رکھتا ہے؟ اجتماعی سانحوں میں فرد کی ذات کیسے بے توقیر ہو جاتی ہے، حمید شاہد نے اپنے عہد میں آنے والی ہر قیامت کی چاپ کو اپنے دل پر دھمکتے محسوس کیا ہے۔
”موت کا بوسہ “ میں وہ لکھتا ہے:
”ایک لکھنے والا جب لکھتا ہے تو فوراً ہی لکھنے نہیں بےٹھ جاتا۔ پہلے وہ حیرت سے زمانے کو دیکھتا ہے۔۔۔ اتنی حیرت سے کہ وہ سنسنی بن کر اس کے بدن میں دوڑ جاتی ہے۔ ۔۔ تب کہیں اس کے لفظوں کو زمانہ حیرت سے دیکھتا ہے۔ “
زمانہ اس کے لفظوں کو حیرت سے دیکھے یا نہ دیکھے مگر ان میں و ہ سنسنی ہی نہیں ، وہ اذیت بھی دکھائی دیتی ہے جو زمانے کو دیکھ کر اس کے دل میں برچھی کی طرح اتر رہی ہے۔
کتاب کی سات کہانیاں اگر چہ زندگی کے دیگر متنوع پہلووں کا احاطہ کرتی ہیں مگر ان میں موت کا کوئی نہ کوئی بہروپ ضرور دکھائی دیتا ہے۔ ”ادارہ اور آدمی“ ایک مرتے ہوئے ادارے، اور کچلی ہوئی کمزور قوموں کی آخری رسومات کی تقریب کا قصہ ہے۔ اقتصادیات کے جال میں پھڑکتے ہوئے ناصبور کبوتروں کی کہانی۔ پتلیوں کی مانند کہیں اور سے ہلائی جانے والی ڈوروں میں بندھے انسانوں کے رقصِ غلامی کی ایک جھلک۔ وہ دن گئے جب غاصب لاو لشکر لے کر ، تیر وتفنگ سے لیس ہو کر، کمزور ملکوں اور قوموں پر چڑھائی کرتے تھے۔ اب تو وہ عالمی تجارتی کمپنیوں اور آزاد تجارت کے ہتھیار لے کر ایکسپرٹ اور کنسلٹنٹ بن کر آتے ہیں اور اداروں کو اندر سے کھا جاتے ہیں۔ قومیں اپنے قدموں پر کھڑی کھڑی ، دیمک زدہ عصا کی طرح اچانک زمیں بوس ہو جاتی ہیں۔ وسائل اور اختیارات تک سود میں ادا کرنے پڑ تے ہیں۔ جیسے کوئی گھنا پیڑ گرتا ہے تو کتنی ہی چیونٹیاں، گلہریاںاور چڑیاں بے گھر ہوجاتی ہیں، اسی طرح ایک ادارے کی تباہی سے کتنے گھروں میں بھوک اور مایوسی کا غلبہ ہو جاتا ہے۔کتنے آدمیوں کی زندگیاںرہن رکھی جاتی ہیں۔ ان باتوں کا حساب رکھنے کی کس کو فرصت ہے ۔ حمید شاہد نے اس کام کو فرض کفایہ سمجھ کر ادا کیا ہے۔
”سورگ میں سور“، عالمی گاوں آباد کرنے کی خواہش میں بستی ہوئی بستیاں اجاڑ دینے والی مرگ آثار تھوتھنیوں کی کہانی ہے۔معاصر صورت حال کے بیان کے لیے مصنف نے بکریوں ، کتوں اور سوروں کے استعارے جس خوبی سے بیان کیے ہیں وہ اس کی فنی پختگی اور اظہار کے وسیلوں پر قدرت کا مظہر ہیں۔ ’ ’سورگ میں سور“ کا علامتی انداز اپنی جگہ نہایت مکمل اور بے ساختہ محسوس ہوتا ہے اور کہیں بھی تفہیم و ابلاغ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرتا۔ یہ ایک نسل کی کہانی ہے نہ ایک ملک یا قوم کی۔ یہ اس روئے زمین پر رونما ہونے والے ایک عہد ِ زیاں کی کہانی ہے۔ اس عہد کی جس میں:
”اور اب یہ ہو چکا ہے کہ کتے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ ۔۔ بہت زیادہ اور بہت قوی۔۔۔ اتنے زیادہ کہ ہمارے حصے کا رزق بھی کھا جاتے ہیں۔ اور اتنے قوی کہ ان کی زنجیریں ہماری ہتھیلیوں کو چھیل کر ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں۔ یہ کتے ہمارے کھیت اجاڑنے والوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ ۔۔ عادی، خوف زدہ یا پھر ان ہی جیسے۔ ممکن ہے ان پلیدوں کے بار بار بدن تان کر کھڑا ہونے کے سبب کوئی سہم ان کے دلوں میں سما گیا ہو۔ معاملہ کچھ بھی ہو صورت احوال یہ ہے کہ تھوتھنیوں والوں کو غراہٹوں کی اوٹ میسر آگئی ہے۔ کتے دور کھڑے فقط غرائے جاتے ہیں۔ ہم سے ذخمی ہتھیلیوں میں بلم، برچھیاں اور کلہاڑیاں تھامی ہی نہیں جا رہیں لہٰذا ہم خوف اور اندیشوں سے کانپے جاتے ہیں۔ ۔۔ اور کچھ یوں دکھنے لگا ہے کہ جیسے اس بار تھوتھنیوں والے ، انھی کتوں کی غراہٹوں کی محافظت میں ہمارے سارے کھیت کھود کر ہی پلٹیں گے۔ “
یہ اعتراف شکست ہے یا صور ت احوال واقعی، اس بات سے قطع نظر اس تمثیل کا اطلاق کہاں کہاں نہیں ہوتا۔ حمید شاہد نے اس کہانی میں علامت سے معنویت ہی نہیں بلکہ ابلاغ کی ایک ایسی سطح بھی اخذ کی ہے جو ہر اعتبار سے قابل رشک ہے۔
دوسری کہانیاں بھی کسی نہ کسی مرگ کا بیانیہ ہیں۔
”معزول نسل“ میں کچے سے پکے تک کے سفر میں گم ہوجانے والی مسرتوں اور وفات پاجانے والی راحتوں کے نشان ہیں۔
”گانٹھ“ پرانی امیدوں اور خوابوں کی راکھ سے نیا جنم لینے والے آگ کے کیڑے کی داستان ہے جو ایک اجتماعی سانحے کی آتش میںدھل کر نکلا ہے۔ وہ ایک نیا انسان ہے جسے اپنی پہچان اور قیام کے قرینے نئے سرے سے طے کرنے پڑے ہیں۔ اس فکری زاویے کے حوالے سے اس کہانی کا ذائقہ ”مرگ زار“ سے ملتا جلتا ہے تاہم ایک ہی موضوع کو نہایت مختلف اور متنوع ٹریٹ منٹ کے ذریعے نیا رنگ دیا گیا ہے۔
”تکلے کا گھاو“ مرتی ہوئی قدروں اور شکستہ رشتوں کا نوحہ ہے۔
”لوتھ“ ایک جیتے جاگتے انسان کے اندر سے ڈھے جانے کے عمل کی نقش گری ہے۔
اور ”برشور“ روئے زمین پر آسمانوں کی طرف دیکھتی ہوئی زندگی کے جرعہ جرعہ، قطرہ قطرہ، خشک ہوجانے کی دل دہلا دینے والی تصویر ہے۔ اس کہانی کا لوکیل اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس حوالے سے اردو افسانے کی فضا میں یہ کہانی ایک نئے اور دلدوز موضوع کا اضافہ ہے۔ ایتھوپیا اور صومالیہ کی بھوک پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر ہمارے اپنے خطہ¿ بلوچستان میں خسک سالی کا عفریت کس کس طرح انسانی زندگیوں اور مسرتوں کا لہو پی رہا ہے اس بارے میں کوئی افسانہ کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ مصنف نے اگرچہ ایک غیر جانبدار راوی کی طرح یہ ساری حکایت بیان کی ہے مگر برشور مصنف کی طرح اس کہانی کے ہر قاری کا پیچھا کرتا ہے اور غالباً یہی مصنف کا مقصد بھی ہے۔
باقی بچی ، ایک تہائی سے بھی کم یعنی صرف چار کہانیوں، ”رکی ہوئی زندگی“، ”پارینہ لمحے کا نزول“ ”آٹھوں گانٹھ کمیت“ اور ”ناہنجار“میں بچی کھچی، ٹوٹی پھوٹی ، ادھ پچدّی زندگی کو تھامنے کے لیے ہاتھ پاو¿ں مارنے کے منظر ہیں۔ بیوی کے گردگھومتی ان کہانیوں میں کشش اور گریز کی ساری قوتیں باہم دست وگریباں دکھائی دیتی ہیں۔ کھلی ہوئی آنکھیںجب سامنے کے روح فرسا مناظر سے تھک جائیں تو پل بھر کو پلکیں موند لینے سے راحت ملتی ہے اور دوبارہ دیکھنے کی اہلیت تازہ دم ہو جاتی ہے۔ یہ چاروں کہانیاں، پلکیں موند لینے کے اسی وقفے کی عکّاس ہیں۔
حمید شاہد کی ان کہانیوں کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ موت ان میں محض ایک نجی اور ذاتی احساس کی صورت جلوہ گر نہیں ہوتی۔ اگرچہ موت کے بارے میں ان کے احساسات میں اتنی شدت ہے کہ اس کا بیان کرتے ہوئے ایک حسی تجربے کی آگ کی لپٹیں تک دکھائی دیتی ہیں لیکن یہ فقظ ذاتی کرب نہیں ہے۔ مرتی ہوئی زندگی کو دیکھ دیکھ کر مرنا اور مر مر کر جینا ان کے گہرے مشاہدے اور اجتماعی کرب و الم کو دل کی لگی بنا لینے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اپنے ارد گردپھیلے ہوئے معاشرتی حقائق ہی کو اپنا موضوع نہیں بنایا بلکہ بین الاقوامی صورت حال کے تناظر میں ایک بالغ فکر انسان کی طرح حالات کا تجزیہ کرنے اور اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرنے کی جرات مندانہ اور کامیاب کوشش کی ہے۔
شدت احساس اور فکری گہرائی کے ساتھ ساتھ تکنیکی تجربات بھی محمد حمید شاہدکی فنی پختگی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے افسانے”مرگ زار“ میںجگہ جگہ رک کر لکھے جانے والے ”نوٹ“ اور وہ اندازے جو وہ قاری کے ساتھ مل کر لگاتا ہے ، اسے ایک مخصوص سمت دینے میں بہت موثر ثابت ہوتے ہیں۔
افراد کی زندگیاں اور نظریات کس طرح اداروں، قوموں ، ملکوں اور بالآخر دنیا بھر کے اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی منصوبوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ زنجیر کی کڑیاں کس طرح ایک دوسری سے پیوست ہو کر ایک ایسا جال بنا دیتی ہیں جس میں دنیا بھر کے معصوم اور سادہ لوح انسان سر کٹے پرندوں کی طرح پھڑپھڑاتے ہیں۔
صید کون ہے اور صیاد کون؟
کون حاکم ہے کون محکوم؟
کون فاعل ہے کون مفعول؟
یہ اور ایسے کتنے ہی سوال ہیں جن کا سامنا اب ہر ایک کو ہے۔ان سوالوں سے نظریں چرا لینا اب کسی کے لیے بھی ممکن نہیںرہا۔ محمد حمید شاہد بھی اپنے افسانوں میں ان سوالوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کااسلوب عام کرتے نظر آتے ہیں۔
عالمی منظر نامے کے تناظر میں ہم اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟؟؟

٭٭٭

مبین مرزا







مبین مرزا
مرگ زار: ایک گفتگو
( حلقہ ءارباب ذوق ‘اسلام آباد کی ” مرگ زار“ کے لیے تقریب ‘ منعقدہ اکادمی ادبیات پاکستان‘ اسلام آباد میں کی گئی گفتگو )

معزز خواتین و حضرات!
....محمد حمید شاہد ہم عصر افسانوی ادب کا سنجیدہ حوالہ ہیں ۔ وہ افسانہ نگار بھی ہیں اور نقاد بھی۔ تنقید میں بھی ان کاکام اُن کی شناخت کے نقوش مرتب کرتا ہے اور ہم عصر تنقید کے سرمائے میںایک زیرک‘ سنجیدہ اور بے لاگ اظہار پر یقین رکھنے والے نقاد کے نام کا اضافہ کرتا ہے ۔ تاہم بحیثیت افسانہ نگار آج وہ جس مقام و منزل پر ہیں وہاں تک پہنچتے پہنچتے ایک تخلیق کار پورے قدوقامت کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے آتا اور عصری ادب کے مرکزی دھارے میں اپنی جگہ بنا لیا کرتا ہے۔ چنانچہ محمد حمید شاہد کے افسانوں کی طرف اب نہ تو سر پرستی کے جذبے کے ساتھ نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی دوست داری کو بنیاد بنا کر اُن کے کام کا جائزہ لیا جانا چاہیے بلکہ ہمیں اب اُنہیں پورے معیار کی کسوٹی پر کس کر دیکھنا چاہیے ۔ اس لیے کہ سنجیدگی سے کام کرنے والے تخلیق کار کا مطالعہ سنجیدہ ہو کر ہی کیا جانا چاہیے اور آج کی اس محفل میں حمید شاہد کے کام کے حوالے سے ہونے والی گفتگوئیں سن کر مجھے خوشی ہوئی کہ مقررین نے نہ صرف سنجیدگی سے اُن کا مطالعہ کیا ہے بلکہ مختلف پہلوو¿ں سے ان کے کاکام کا جائزہ بھی لیا ہے ۔ برادرم ناصر عباس نیّر جواں سال نقاد ہیں اور ابھی سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے نئے تنقیدی نظریات اور عصری مباحث کے حوالے سے محمد حمید شاہد کے افسانوں پر یہاں ایک اچھا مضمون پڑھا۔ برادرم علی محمد فرشی کہ اب تک جدید نظم نگار کی حیثیت سے شناخت کئے جاتے تھے ‘انھوں نے حمید شاہد کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ۔ اسی طرح ایک اچھا مضمون پڑھا ہے نجیبہ عارف صاحبہ نے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں کئی کام کی باتیں کی ہیں اور حمید شاہد کی افسانہ نگاری کو سمجھنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ ”مرگ زار“ کے افسانوں کے حوالے سے انھوں نے ایک بنیادی بات یہ کہی کہ اس مجموعے میں متعدد افسانوں کا موضوع کسی نہ کسی عنوان موت بنتا ہے۔ اس نکتے پر بات ہونی چاہیے ۔ لیکن اس سے قبل میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں ‘ وہ یہ کہ ذاتی طور پر میرے لیے راول پنڈی ‘اسلام آباد کے ان دوستوں کی گفتگوئیں بڑی طمانیت کا باعث ہیں ۔ اس لیے کہ یہ ہم عصرتنقید پر ہمارا اعتماد بحال کرتی ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنے ایک معاصر کے کام کو سنجیدگی سے دیکھا اور دیانت کے ساتھ اس کی بابت اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
خواتین و حضرات! اگلے وقتوں میں قومیں ‘ تہذیبیں اور زمانے اپنے کار ناموں ‘ افکار اور شخصیات کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے لیکن ہمارے زمانے میں شناخت کا ایک اور حوالہ سامنے آیا ہے اور وہ ہے آواز۔ جی ہاں ! ہمارے زمانے کی شناخت کا سب سے بڑا حوالہ اس کی آوازیں ہیں‘ کرب و اندہ کی آوازیں جو ایک شور کا روپ دھار کر ہم تک پہنچ رہی ہیں ۔ یہ انسانی تہذیب کے سفر کا عجیب موڑ ہے ۔ سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے اسے چند برس قبل تہذیبوں کا تصادم کہا تھا ۔ لیکن آج کی انسانی صورت حال کا منظرنامہ جو فلسطین ‘ افغانستان اور عراق میں انسانیت کے خلاف بہیمانہ جارحیت سے عبارت ہے‘ ہمیں صاف صاف بتاتا ہے کہ اب تصادم انسانیت اور نیو کیپٹیلزم میں ہے۔ انسانی تہذیب کے سفر کا یہ موڑ ہمیں انسانیت‘ تہذیب اور اقدار کی مکمل نفی کا راستہ دِکھا رہا ہے ۔ تو ظاہر ہے کہ اس سفر کی سوغات تو موت ہی کی شکل میں ہم تک پہنچے گی۔ جی ہاں موت! جو آج شکلیں بدل بدل کرہمارے سامنے آرہی ہے اور ہمارے دوستوں کو‘ عزیزوں کو‘ ہم جیسوں کو ہم سے چھین کر ‘ جھپٹ کر لے جارہی ہے۔ ہر عہد کے ادب کو اپنے عصری تناظر کے حوالے سے کچھ سوالوں کا سامنا ہوتا ہے ‘ تو دیکھنا چاہیے کہ کیا ہمارے عصری ادب کو درپیش سب سے بڑا سوال موت کا سوال تو نہیں ہے۔ محمد حمید شاہد کے اس مجموعے ”مرگ زار“ میں جو بار بار موضوع اور مسئلہ بن کر افسانہ نگار کے سامنے آرہی ہے‘ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ عصری زندگی کا کیسا شعور رکھتے ہےں اور ایک بڑا اور اہم ترین موضوع ہے جو اس وقت سنجیدہ لکھنے والوں سے توجہ کا طالب ہے۔
محمد حمید شاہد کے افسانوں کی بابت سوچتے ہوئے ایک اوربات بھی میں نے محسوس کی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے یہاں عصری زندگی ‘ اس کے مسائل ‘ اس کی انسانی اور غیر انسانی صورت حال کا وسیع سیاق و سباق مرتب ہوتا ہے ۔ یہ نہیں ہے کہ اُنہیں ماضی سے کوئی سروکار نہیں ہے یا یہ کہ وہ مستقبل کی طرف دیکھتے ہی نہیں ۔ نہیں ایسا نہیں ہے ۔ وہ ماضی سے لا تعلق نہیں اور مستقبل کی نفی بھی نہیں کرتے لیکن ماضی ہو یا مستقبل دونوں کی نسبت ان کے یہاں حال سے مربوط ہے اور دونوں کے معنی حال ہی کی نسبت سے متعین ہوتے ہیں۔ مراد یہ کہ حال ان کے یہاں سب سے بڑی reality کے طور پر نظر آتا ہے۔ یہاں کسی قسم کی سبقت کا اظہار یا موازنہ یا تفریق و تقسیم مقصود نہیں ‘ محض عصری تناظر میں بدلتے ہوئے تخلیقی رویوں کی نشان دہی کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ اسّی کی دہائی اور اس کے بعد آنے والے باشعور تخلیق کاروں کا اسلوب اور ابلاغ کا دائرہ ستّر اور ساٹھ کی دہائی کے لکھنے والوں سے مختلف ہے۔ ان کی صورت حال زیادہ کومپلیکس ہے اور اپنے بیان کے لیے نئے پیرائے کا مطالبہ کرتی ہے ۔ ذہین تخلیق کاروں نے اس مطالبے کو سمجھا اور اس چیلنج کو قبول کیا ہے ۔ اس عہد کے لکھنے والوں نے انتظار حسین‘ منشایاد‘ اشفاق احمد‘ رشید امجد‘ سریندر پرکاش ‘ اسد محمد خان‘ انور سجاد‘ بلراج مین را کے تخلیقی تجربے سے سیکھا بھی ہے اور روشنی بھی حاصل کی ہے لیکن اسّی کی نسل نے اپنی راہ بہرحال الگ نکالی ہے۔ اس نسل کے ہاں علامت اور حقیقت کا جو امتزاج نظر آتا ہے‘ وہ اس کے بدلے ہوئے تخلیقی تجربے کامنھ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں علامت فرد کے ذاتی احساس سے آگے نکل کر اجتماع کے وسیع دائرے کی طرف زیادہ سہولت سے سفر کرتی ہے ۔ اس نسل کے لکھنے والوں کی حقیقت نگاری محض بیانیے کے سادگی کا حاصل نہیں ہے بلکہ اس میں معنویت کی الگ الگ سطحیں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ اس لحاظ سے ان لوگوں کی الگ تخلیقی شناخت قائم ہوتی ہے۔ محمد حمید شاہد اسی نسل کے ایک نمائندہ افسانہ نگار ہےں۔ ان کے افسانے اپنے عصری سوالوں سے جڑے ہوئے ہیں اور اپنے ابلاغ کا دائرہ مکمل کرتے ہیں ۔
ابھی منشایاد صاحب نے ایک بات کہی کہ حمید شاہد نے صاحبِ اسلوب بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ اچھی کہانی لکھنے کی کو شش میں لگے رہے۔ یہ بہت اہم بات ہے ۔ ذاتی طور پر میں صاحبِ اسلوب ہونا کسی بھی لکھنے والے کے لیے باعث ِ اعزاز گردانتا ہوں ۔ ہمارے عہد کا بے حد معتبر نام انتظار حسین بلا شبہ صاحبِ اسلوب کی شناخت رکھتا ہے۔ لیکن انتظار حسین کا اسلوب خارج سے قائم نہیں ہوتا بلکہ یہ تو خود ان کی کہانی ‘ ان کے بیانیے‘ ان کی زبان ‘ ان کے طرزِ اظہار اور ابلاغ کے باہمی تال میل سے از خود وضع ہوتا ہے۔ یعنی بالکل فطری انداز ہے انتظار حسین کا۔ لیکن منشایاد صاحب نے جس صاحب ِاسلوب کو condemn کیا ہے وہ فطری نہیں غیر فطری ہے۔ وہ خارج سے اسلوب اٹھا کر کہانی میں ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے۔ محمد حمید شاہد یقینا ایسا نہیں کرتے۔ وہ کہانی کو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلوب ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا مسئلہ تو کہانی ہے۔ ایسی کہانی جس سے وہ اپنی اور اپنے معاشرے کی زندگی کے معنی جان سکےں‘ اُسے سمجھ سکےں۔ یہ فرد اور اجتماع کو ایک نقطے پر مرتکز کرکے دیکھنے کی سعی ہے ۔ جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کام ہما شما کے بس کا نہیں ہوتا۔ ایک جینوئن اور سچا تخلیق کار ہی خود کو اس تجربے کے لیے تیار کر سکتا ہے ۔ اس خوب صورت تقریب کے انعقاد پر میں ذاتی طور پر بہت خوش ہوں اور محمد حمید شاہد کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میں حلقہ ءارباب ذوق ‘اسلام آباد کے احباب کا اور آپ سب کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اس میں شرکت کا موقع فراہم کیا گیا۔
( حلقہ ءارباب ذوق ‘اسلام آباد کی ” مرگ زار“ کے لیے تقریب ‘ منعقدہ اکادمی ادبیات پاکستان‘ اسلام آباد میں کی گئی گفتگو )

٭٭٭

Followers