Sunday, March 15, 2009

سیّد مظہر جمیل

سیّد مظہر جمیل
مرگ زار اور دوسری کہانیاں

محمد حمید شاہد نے اپنے ایک تازہ مضمون ( دہشت کے موسم میں کہانی کا چلن) میں معاصر کہانی کو بے حسی کے مخمصے میں گرفتار عقل ِعیار کی کارستانی سے تعبیر کیا ہے جو آنکھوں کے سامنے بپا قیامتوں سے آنکھیں چار کرنے سے دیدہ و دانستہ گریز کرتی ہے اور ہم عصر افسانہ نگار اپنے عہد کی شوریدہ سچائیوں کو اپنے حسی اور تخلیقی تجربے کا حصہ بنانے سے مجرمانہ گریز پائی کا شکار ہے کہ اس میں عافیت کی ٹھنڈی چھاﺅںسے نکل کر موت کی زد پر آئی ہوئی زندگی کی سردوگرم سانسوں کے آہنگ کو محفوظ کرنے کا کٹھن وظیفہ انجام دینا ہوتاہے۔ چناں چہ وہ اچھے معاصر کہانی کاروں کی بے حس عافیت کو شی کو نہ صرف تخلیقی تعمل پذیری سے متصادم قرار دیا ہے بلکہ مفادات ِ وابستہ کی کر شمہ سازی کا حاصل بھی۔ وہ لکھتا ہے:
” پہلے معاملہ کچھ اور تھا‘ جو دیکھا اُسے جام جہاں نما بنا لیا اور اُس میں ایک عالم کو دیکھ لیا ۔ تب جو من میں بستی تھی وہی دِل میں دھنستی تھی اورقلم بگٹٹ اپنی منزلوں کو دوڑتا تھا۔ مگر اب جو دیکھتا ہے وہ لکھ نہیں پاتا ۔ یوں لگتا ہے ‘قلم قلم نہیں رہا ‘ رانڈ کا سانڈ اور سوداگر کا گھوڑا ہو گیا ہے ‘جو کھاوے تو بہت مگر چلے تھوڑا تھوڑا۔“
اِنسانی صورت ِ حال کی زبونی سے مجرمانہ اغماض برتنے والے تخلیق کاروں کی گرفت کرتے ہوئے حمیدشاہد مزید لکھتا ہے:
”جس کی پاس قلم کا حیلہ اور تخلیق کی کرامت ہے دہشت کی اس آندھی میںکیسے ہاتھ بازو توڑ کر بیٹھا رہے گا ۔کہانی طلسم اور ولیوںکے سے کمال کا بھید اپنے اندر رکھتی ہے۔ بس ایک تدبیر‘ کہ یہی سچ ہے اور جانیں تو یہ ہماری کہانی کی تقدیر بھی ہے۔ تدبیر یہ ہے کہ دل کڑا کرکے اپنے تخلیقی تجربے کو عصری حسیت سے جوڑدینا ہے ۔ ایک مصری کہاوت ہے‘ من دق الباب سمع الجواب‘ یعنی جو دروازہ کھٹ کھٹکاتا ہے وہ جواب بھی سنتا ہے ۔ شرط کہانی کے باب پر دستک دینے کی ہے جواب ازخود آپ کا مقدر ہو جائے گا۔“
محمد حمید شاہد کے تازہ مجموعے ” مرگ زار“ کے دیباچے میں کم و بیش کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار ہمارے عہد کے ایک اور نمائندہ کہانی کار اور تنقید نگار مبین مرزا نے بھی کیا ہے ۔ انہوں نے حمید شاہد کی کہانیوں میں رواں احساس کرب کا منبع اس مجموعی انسانی ابتلا کو قرار دیا ہے جو اکناف عالم اور ہمارے ارد گرد کی فضاﺅں میں بالخصوص تیر رہی ہے اور جسے حمید شاہد اپنے حسی تجربے میں ڈھال کر کہانی کا روپ دے دیتے ہیں۔مبین مرزا نے اسے محض رسمی اور روایتی افسانہ نگاری سمجھنے کی بجائے افتادگان خاک پر گزرتی ہوئی شقاوتوں کے خلاف استغاثہ رقم کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ایک ایسا تخلیق کار جو ابھی چشم ِ مشاہدہ کی بصارت اور جذب و احساس کی بصیرت سے محروم نہیں ہوا ہے‘ معروضی صورتِ حال سے کیوں کر گریز پائی اختیار کر سکتا ہے۔؟!
اس تناظر میں دیکھیے تو حمید شاہد کی کہانیاں بالخصوص ”مرگ زار“ ، ” گانٹھ“ ،” موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ ایسی کہانیاں ہیں جنہیں معاصر کہانی کے بند دروازے پر دی جانے والی ایسی دستکیں سمجھنا چاہیے جو بے حس ضمیروں پر جمی برف کو پگھلا سکتی ہوں یا نہیں لیکن حمید شاہد نے ان کہانیوںکے توسط سے زبوںحال انسانوںپر توڑے جانے والے ظلم‘ تشدد ‘جبر‘ سفاکیت‘ دہشت اور ہلاکت آفرینیوں کے خلاف تخلیق کے محضر نامے پر اپنا استغاثہ ‘ اپنی گواہی ‘ انحرافی رد ِعمل اور احتجاج ضرور رقم کر دیا ہے اور یوں وہ نوبل انعام یافتہ ادیبہ الفریڈی یلینک کے ہم رکاب ہو جاتا ہے ‘ جوکہتی ہے:
”لکھتے ہوئے میری ہمیشہ یہ کو شش ہوتی ہے کہ کمزوروں کا ساتھ دوں۔ طاقتور کی حمایت ادب کا منصب نہیں ہے۔“
ظاہر ہے ‘ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے کہ اس میں آپ کو عافیت کے نرم و گرم گو شوں کو خیر باد کہنا پڑتا ہے بلکہ یہ تخلیقی عمل بارودی سرنگوں سے پُر وادی ِ اظہار میں سفر کرنے کے مترادف ہے جہاں اندازے کی معمولی سے معمولی فروگزاشت اور غلطی بھی تخلیق اور تخلیق کار کے وجود بھسم کر دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہاں تو اظہار کے وسیلوں کو غیر معمولی حزم و احتیاط سے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جیسے چابک دست سرجن کے ہاتھ میں آلہ¿ جراحت اور مشاق وخلاق مصور کے تصرف میں رنگ بکھرتا ہوا مو قلم۔
” مرگ زار“ ایک ایسی کہانی ہے جو افغانستان کے چٹیل اور سخت کوش معاشرے میں گزشتہ تین عشروں سے جاری وحشت و بربریت ‘ خوں آشامی‘ قتال عظیم اور انسانیت کی تذلیل و شکستگی کی طا غوتی عملداری کے پس منظر میں لکھی گئی ہے ۔ ایک دور وہ تھا جب افغانستان میں کفر اور اسلام کا جہاد فی سبیل اللہ بپا تھا‘ہلاکت و سفاکیت کا ایک آتشیں الاﺅ تھاجس نے نکبت کے شکار معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ روس کی بے دین فسطائیت پر خدائے واحد کی حاکمیت اور دین اسلام کی رحمتوں کا فروغ ہی وہ اعلی نصب العین تھے جو بیک وقت مجاہدین اسلام اور سرکارِ امریکہ کو عزیز تھے کہ وہی اس جہادِ فی الدین کا سب سے بڑا مربی اور حلیف تھا۔ اس آتشیں الاﺅ کو دہکائے رکھنے کے لیے عالم اسلام سے سرفروش مجاہدین کے غول کے غول تھے جو شہادت کی دولتِ بے بہا کی طلب میں قیمتی جانوں کا نذرانہ گزارتے نہ تھکتے تھے۔ یہ عالمی جہاد کا وہ کار زار تھا جو کشمیر ‘ افغانستان ‘ فلسطین ‘ چیچنیا اور بوسنیا جیسے دور دراز خطوں تک پھیلا ہوا تھا اور جہاں کھیتوں کھلیانوں تک مجاہدوں‘ فدائیوں اور حریت پسندوں کے لیے شہادت کی سبیلیں کھولی جا چکی تھیں ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے موسم بدلا کہ جہاد کی عبادت گزاری کو دہشت گردی کی غلیظ گالی کا مترادف قرار دیا گیا۔ اور مغرب کے متمدن معاشروں کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اکنافِ عالم میں ان دہشت گردوں کو ‘ جو کبھی فدائین‘ کبھی مجاہدین اور حریت پسند وں کے القابات سے پکارے جارہے تھے‘ چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ ان کی بستیاں ‘ ان کے شہر‘کھیت‘ کھلیان‘ کچے پکے جھونپڑے‘ عبادت گاہیں‘ اسکول‘ اسپتال غرض سب ٹھکانے نیست و نابود کر دیے گئے۔ عالمی سپر طاقت اور ان کے باج گزارحلیفوں نے افغانستان کے مفلوک الحال باشندوں کے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔
ظاہر ہے موضوعاتی سطح پر یہ ایک نہایت چیختا چنگھاڑتا موضوع ہے جس سے ہلاکت آفرینی کے بے شمار گوشے نکلتے ہیں ۔ اس خون آشام موضوع پر ایک بلند بانگ للکارتی ہوئی کہانی ہی لکھی جا سکتی تھی۔ جس میں نالہ و شیون کی اذیت ناک کراہیں بلند ہوتیں یا حز یمت خوردہ زخموں کی للکاریں ‘ لیکن محمد حمید شاہد نے انتہائی محتاط اسلوب سے کہانی کو فنی دائرے سے باہر نکلنے سے باز رکھا ہے اور کہانی ماجرائیت کی سطح سے لے کر اختتامی فقروں تک فطری اظہار کا زینہ طے کرتی دِکھائی دیتی ہے ۔ واقعاتی سطح پر تو کہانی میں کوئی ندرت نہیں ہے کہ اس زمانے میں ایسے سانحے معمول کی بات تھی۔ ایک نوجوان (مصعب) افغانستان میں بپا جہادی مورچے میں شہید ہوجاتا ہے اور مجاہد تنظیم کے لوگ اس کی لاش کے منتشر ٹکڑے اکٹھے کر کے پشاور لاتے ہیں اور کہانی کے راوی کو جو شہید کا بھائی ہے ‘ اس کی شہادت کی ”خوشخبری“ سناتے اور مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ وہ بھائی کی لاش حاصل کر نے مری سے پشاور تک کا سفر کرتا ہے لیکن جہادی تنظیم والے شہید کی وصیت کے مطابق اس کی لاش کے باقیات کو جلال آباد کے گنجِ شہیداں میں دفن کرنا چاہتے ہیں اور اس کام کے لیے اس کی اجازت چاہتے ہیں ۔ کہانی کا سارا تاروپود ایک بے حس میکانکیت کا اظہار ہے ۔ جہادیوں کے قول و عمل میں شہادت کی دولتِ بے بہا پر مبارکبادیاں ہی مبارکبادیاں ہیں۔ انسانی زندگی کے اتلاف پر دکھ اوررنج کی ہلکی سی لہر بھی نہیں ۔ ایک جیتا جاگتا پرجوش نوجوان جس کے سامنے عالمِ امکان پھیلا ہوا ہے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے لیکن اس کا کٹا پھٹا لاشہ بھی محترم ہے کہ وہ شہید کے ارفع وعالی مقام پر فائض ہو چکا تھا تو وہ ”شہادتیں“ جو نقل مقانی اور ہجرت کے دوران وقوع ہوئی تھیں اور جنہیں بھلانے میں ایک مدت لگی ہے‘ اس شہادت سے کیوں کر مختلف ہو سکتی ہیں ۔ اب وقت گزرنے کے بعد سب موتیں ایک ہی جیسا صدمہ بن کر رہ جاتی ہیں فرق صرف نکتہ ¿ نظر کی تبدیلی کا ہوتا ہے اور اس عقیدے کا کٹر پن انسان سے دل گداختگی کی حرارت چھین لیتا ہے۔ کہانی میں جذباتیت اور سنسنی خیزیت کا احساس نہیں ہوتا۔ بس حزن و ملال کی اتنی ہی کیفیت طاری رہتی ہے جتنی ایک ایسے عمومی واقعے میں ہونا چاہیے تھی اور ایسا کیوں کر ممکن ہو سکا؟ یہ سوال بجائے خود کہانی کے ایک اہم پہلو کی نشاندہی کرتا ہے اور وہ یہ کہ ”مرگ زار میں محمد حمید شاہد نے تکنیکی اعتبار سے ایک ذرا جداگانہ وتیرہ اختیار کیا ہے یعنی فکشن اور نان فکشن کے اختلاط سے فضا سازی کاکام لیا ہے ۔ جو باتیں کہانی میں بیان نہیں کی جاسکتی تھیں انھیں وضاحتوں کے زمرے میں بیان کر دیا گیا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ دونوں حصے ‘فکشن /نان فکشن ایک دوسرے سے مربوط ہو کر کہانی کے مجموعی تاثر کو مزید گہرا کرتے ہیں ۔ بے شک ” مرگ زار“ اس موضوع پر لکھی گئی اچھی کہانیوں میں ضرور شامل کی جائے گی اور اس میں برتی گئی تکنیکی تدبیر کاری کی افادیت اور تاثیریت پر متعلقہ حلقوں میں غور بھی کیا جائے گا۔
اسی طرح حمید شاہد کی کہانی ” گانٹھ“ 9/11 کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورت ِ حال سے جنم لیتی ہے جس میں ایک ایسے پاکستانی ڈاکٹر کی افتاد دکھائی گئی ہے جو کئی عشروں سے امریکا میں آباد چلا آتا ہے اور جس نے اپنے وجود ہی کو نہیںبلکہ جداگانہ شناخت‘ تصورات‘ خیالات اور احساس تک کو امریکی معاشرے میں مکمل طور پر ضم کر دیا ہے ۔ اس نے امریکی خاتون سے شادی کی اور اسے نہ صرف اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی دی بلکہ بچوں تک کو مقامی طور طریقوں ہی پرپروان چڑھانے کی اجازت دی۔ یہاں تک کہ بیوی ہمیشہ ”کیتھرائن“ اور بیٹے ”راجر“ اور ”ڈیوڈ“ ہی رہے ۔ اس نے دنیا کی ہر آسائش اپنے امریکی خاندان کو فراہم کی ‘ اس کا ماضی نہ جانے کب سے فراموش گاری کی گرد میں اٹ چکا تھا کہ 9/11 کی ناگہانی افتاد نے اسے بھی بہت سے سابقہ ہم وطنوں کی طرح شک وشبہ کے خندق میں پھینک دیا اور بالآخر اسے بھی ”اون کنٹری“ میں ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ رشتے ناطے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ چکے تھے ۔ حد یہ کہ بیوی بچے تک مغائرت اور بیگانگیت کا شکار تھے۔ ان کے درمیان صرف ضرورت مندی کا ایک واسطہ رہ گیا تھاکہ بیوی بچوں کا اس سے مطالبہ تھا تو بس اتنا کہ وہ ڈی پورٹ ہونے سے قبل امریکا میں موجود اپنی تمام دولت سے دست برداری کے کا غذات پر دستخط کر دے کہ وہ اس کے بعد فارغ البالی کی زندگی بسر کر سکیں۔ پاکستان آنے کے بعد بھولی بسری بہن اور اس کے بچوں سے ٹوٹے ہوئے رشتے کی بحالی نئی حقیقت پسندیت کو اُبھارتی ہے ۔ بادی النظر میں دیکھیے تو یہ کہانی بھی عالمی سیاست کے تناظر میں لکھی گئی کہانی نظر آتی ہے لیکن بغور دیکھیں تو اس میں بھی انسانی رشتوں کی شکست و ریخت اور تہذیبی و ثقافتی قدروں کی پائمالی اور نامعتبری کا المیہ دکھائی دے گا اور دنیا کی مہذب ترین قوم جو دنیا بھر میں انسانی توقیر ‘ انصاف پسندیت‘ امن و امان کی بحالی‘ عالمی خوشحالی اور تہذیبی فروغ کی سب سے بڑی سرپرست‘ مربی اور وکیل ہے‘ وہی ایک ایسی قوت بن کر اُبھرتی ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ اور حصول کے لیے انتہائی درجہ کی پست ذہنیت‘ تکبر‘ جارحیت اور لاقانونیت کی پرچارک دکھائی دیتی ہے۔ اس کہانی کو بھی محمد حمید شاہد نے نہایت احتیاط اور التزام کے ساتھ لکھا ہے اور حالات و واقعات کی تیزوتند روانی کو قابو میں رکھنے کے لیے ایسی چھوٹے چھوٹے ٹچز(touches) کے ذریعے معنویت کے اسرارپیداکیے ہیںجو سیدھے سادے اسلوب میں مشکل ہو سکتے تھے۔ مثلاً قدیم گھر میں ٹنگی ہوئی مکمل اور نامکمل تصویروں کا ٹچ کتنی ہی ان کہی باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ”موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ“ ہر چند اسی عالمی تناظر میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں 9/11 کے المناک واقعات افغانستان اور عراق سے بلند ہوتے ہوئے آتشیں شعلوں اور وحشت و بربریت کے بھیانک نظارے پس منظر کاکام دے رہے ہیں۔ لیکن دیکھیے تو اصل کہانی کا ان واقعات و حالات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے ‘سوائے اس حیاتی صورت حال ِکے ‘جس میں ایک عالمی حادثے میں وقوع پذیر ہونے والی لوگوں کی اجتماعی موت جائے واردات سے ہزاروں کوس دور مرنے والے فرد واحد کی موت کو بے دردانہ حد تک بے توقیر اور غیر اہم بنا دیتی ہے۔ دُکھ ‘ افسوس‘ تعزیت اورگریزناکی‘سب رسمیاتِ زمانہ ہیںجس کے اظہار کے لیے بھی مناسب ماحول درکار ہوتا ہے۔ عزاداری بھی کچھ قرینے چاہتی ہے ‘ کوئی کتنا ہی دُکھی اور ماتم گسار کیوں نہ ہو ‘ لوگ مرنے والوں کے ساتھ مر نہیں جاتے ۔ نوحہ گر صرف رسم زمانہ کی ادائیگی کرتا ہے۔ محمد حمید شاہد انسانی رشتوں کی کیسی کیسی بوالعجب صورتوں کو کہانی کا موضوع بناتا ہے۔
”رُکی ہوئی زندگی“ ،” لوتھ“، ” پارینہ لمحے کا نزول“،” تکلے کا گھاﺅ“، ”آٹھوں گانٹھ کمیت“ اور” معزول نسل“ جیسی کہانیاں جہاں تیزرفتاری سے بدلتی ہوئی انسانی صورت حال کی تصویریں دکھاتی ہیں ‘وہیں وہ انسانی رشتوں میں آہستہ خرام اور سبک پا ہونے والی شکست و ریخت کی کہانیاں بھی سناتی ہیں۔ ہر کہانی زندگی کے ایک نئے رُخ ‘ نئے پہلو‘ نئے واقعاتی و حسی ماجرائیت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔
محمد حمید شاہد واردات و ماجرائیت کا کہانی کار نہیں ہے ‘ کسی واقعے اور حادثے کی رپورٹنگ اس کا منصب نہیں ہے۔ وہ توواقعات و حوادث اور افتاد و گداز سے پیدا ہونے والی حسی لہروں کو اپنے تجربے کے انٹینا کی مدد سے اپنے احساس میں جذب کر لیتا ہے اور پھر انہیں تخلیقی طور پر تصویروں کی صورت میں نشر کر دیتا ہے ۔ کہیں یہ تصویریں اپنے منظر‘ پس منظرکے ساتھ رواں دواں دکھائی دیتی ہیںاور کہیں وہ ان کے اقتباس اور پر چھائیوں سے فضا سازی کاکام انجام دیتا ہے کہ رعایت اور علامت نگاری بھی حمید شاہد کی فنی دسترس سے باہر نہیں رہے ہیں۔ اس کی کہانی ”لوتھ“ احساس ہی کی لہروں سے مرتب ہوئی ہے ۔ اس میں جوواقعات بیان ہوئے ہیںوہ بجائے خود کہانی کا مقصود نہیں ہیں ‘بلکہ آخری سطروں میں باپ کی آنکھوںمیں تیرتے ہوئے گھاﺅ کی لکیر ہے جسے باپ اپنے ہی بیٹے سے چھپالینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حمید شاہد تاسف کی اس لکیر کو دیکھ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اسے پوری معنویت کے ساتھ پیش کر دیتا ہے ۔ زخمی باپ کا آپریشن ہوتاہے جس میں اس کے جسم کا ایک حصہ کاٹ دیا جاتا ہے۔ بیٹا یہ سب باپ کی محبت اور اس کی صحت یابی کے خیال سے کرتا ہے لیکن اس سے متعلق فیصلے میں باپ کو شریک نہیں کیا جاتا گویا وہ محض ایک انسانی گوشت کا لوتھڑا ہے ‘احساس اور جذبے سے عاری!
آخر میں افسانہ نگاری میں زبان کے برتاﺅ کے باب میں عرض کرنا چاہوں گا کہ حمید شاہد اس سلسلے میں ذرا مختلف نقطہءنظر اور انداز رکھتے ہیں ۔ وہ علاقائی اور مقامی بول چال کے الفاظ کو اس طرح اپنے افسانے میں گوندھ لیتے ہیں کہ اس سے نہ صرف وہ لفظ تخلیقی علامت بن جاتا ہے بلکہ کہانی کے بنانے میں مقامیت کا جوہر اور اپنائیت کی خوشبو بھی تیر جاتی ہے ‘ یہ ایک قابل ستائش عمل ہے ۔ مجموعی طور پر محمد حمید شاہد کے افسانوں کا مجموعہ ” مرگ زار“ اس کے فنی سفر کی تازہ منزلوں کا سراغ دیتا ہے اور اسّی کی دہائی میں اُفق ادب پر نمودار ہونے والے روشن ناموں میں شمار کراتا ہے۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Followers